انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک کہانی کا آغاز ہو جا تا ہے اور اس کا اختتام بالآخر موت پر ہوتا ہے چاہے درمیان میں چند لمحے گزریں یا کئی سال بیت جائیں بچے کو ماں بہلانے کے لئے جو مختصر کلمات کہتی ہے وہ لوری کہلاتی ہے اور طویل دور انیے اور ایک موضوع پر جو کلمات ہوتے ہیں وہ کہانی کہلاتی ہے۔خوش قسمت ہیں وہ
جو ماں کی کہانی سن کے
سوتے ہیں اور ذرا بڑے ہوتے ہیں تو ان کو دادی ما ں سے کہانی سننے کا موقع ملتا ہے۔طالب علمی کے دور میں ہاسٹل میں رہناپڑجائے تو پھر یہ سنہری باتیں یاد آتی ہیں۔روزگار کے سلسلے میں جب غریب الوطنی کے دُکھ جھیلنے پڑتے ہیں تو ان کی یاد بہت ستاتی ہے،لوری کی مٹھاس،گود کی تپش اور دادی ماں کی سنائی گئی کہانیاں تاحیات یاد رہتی ہیں
۔مشترکہ خاندانی نظام کے زوال کا شکار ہونے کے بعد ہمارے بچوں نے بہت کچھ کھویا،ھمارے بچے بچپن کی ان حسین یادوں سے محروم ہوگئے ساس اور بہو کی چپقلش نے ماں کی لوری کی مٹھا س اور دادی ما ں کی مدتو ں یاد رہنے والی کہانیوں سے بچوں کو محروم کر دیا۔
ہمارے آباء و اجداد جب دن بھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر شام کو ایک جگہ جمع ہوتے تھے تو وہاں بھی موضوع بحث کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی تھی اس کہانی کو سب شرکاء بڑے غور سے سنتے تھے، کسی سفر کی داستان، کسی جانور کے اوصاف، کبڈی، گھڑ دوڑ، بیل دوڑ اور شہرت رکھنے والے شکاریوں کی کہانیاں بڑے غور سے سنی جاتی تھیں، 1947ء کی ہجرت کے واقعات سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے، ہمارے سابقہ فوجی حضرت جنگ عظیم دوم کی داستانیں، 1965ء کی جنگ کی بہادری وجرأت کے معرکے اور 1971ء کی جنگ کی قید وبند کی صعوبتیں جب بیان کرتے تو سامعین دم بخود رہ جاتے تھے۔
کہانی کو کئی کئی جلدوں تک پھیلانے میں ناول نگاروں نے بھرپور کردار ادا کیا اور ان تاریخی کہانیوں کو پڑھنے کے لیے کئی ماہ درکار ہوتے ہیں، نسیم حجازی کا ناول آگ کا دریا، مستنصر حسین تارڑ کا اندلس میں اجنبی نے ملک گیر شہرت حاصل کی کم وقت میں کہانی کو آغاز سے انجام تک بیان کرنے کے لیے شروع میں کرداروں کے ذریعے ٹیلی فلم کا سہارا لیا گیا اور پھر بڑی سکرین کے آتے ہی فلم بنانے کا آغاز ہوا بڑے بڑے سینما وجود میں آئے جہاں چند گھنٹوں کے اندر ایک کہانی کو شروع ہوتے
اور ختم ہوتے بیک وقت کئی سو لوگ اگھٹے دیکھنے لگے
۔ کہانی کو سنسی خیزی کے بغیر قسط وار انداز میں چھوٹی سکرین نے دکھانا شروع کیا۔ غرضیکہ اس کہانی کے سفر نے آج تک نت نئے انداز اپنائے اس مقصد کے لیے آج کل گوگل اور یوٹیوب کا استعمال ہونے لگا ہے کوئی بھی شخص کسی بھی کہانی کو فلما کر یا ویڈیو بنا کر چند منٹوں میں اپ لوڈ کرسکتا ہے اس طرح کہانی کو بین الاقوامی سطح تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ کسی بھی موضوع کا انتخاب کرلیں اور اس کو سرچ انجن کے ذریعے ڈھونڈلیں لا تعداد کہانیاں سامنے آجائیں گی سامعین وناظرین کی دلچسپی آپ کو کمنٹس کے ذریعے پتہ چل جائے گی۔
اتنی زیادہ ترقی کرنے باوجود کیا کہانی اپنی افادیت کھوچکی ہے؟ ہر گز نہیں کہانی کی اہمیت اپنی جگہ اسی طرح قائم ہے، موضوعات افادیت کھوچکے اب وہ تاریخی داستانیں اور حقیقی معاشرتی موضوعات نہیں رہے اس وقت حقیقت پسند موضوعات کو بیان کرنے اور عوام تک پہنچانے کے لیے جرأت کی ضرورت ہے،
شاعروں کو صرف شاعر پڑھ رہے ہیں اور ادیبوں کی تخلیقات ادیبوں کے اندر ہی موضوع بحث بنی رہتی ہیں، عام آدمی کی رسائی کتابوں تک نہیں اور نہ شوق رہا۔ اب کہانی سنانے کے لیے سامعین تو کجا، کہانی بنانے کا رواج بھی نہیں رہا، شاید ذرائع ابلاغ کی تیز رفتار ترقی نے ہم سے یہ سب کچھ چھین لیا۔