97

اسلام علیکم

جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے قریب آتا ہے تو ہم کلام ہونے کے لئے دین اسلام نے ”السلام علیکم“ کہنے کا حکم دیا ہے جب ہم اپنے کلام کا آغاز مخاطب کی سلامتی کی دعا سے کرتے ہیں تو نفرت، حقارت کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے عمل کی بنیاد ہی دوسرے مسلمان کی سلامتی کی خواہش سے شروع ہوتی ہے جب تک مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش نہیں آئیں گے اس وقت تک خود ساختہ بنائی گئی سوچ کے نتیجہ میں نفرت کی آگ میں جلتے رہیں گے جس کے نتیجہ میں حسد،بغض،کینہ جنم لیتا ہے گا جو رفتہ رفتہ اخلاق،عبادت،ریاضت،ہر چیز کو تباہ کردیتا ہے ہم اسباب و جوہات پر غور نہیں کرتے اور نتائج پیدا کرنے کی بے سود کوشش میں وقت برباد کرتے ہیں

اس لئے ہماری بنیاد ی پریشانیاں بڑھتی رہتی ہیں حل نہیں ہوتی اس کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے سے مسائل بڑھتے ہیں گالم گلوچ،طعنہ زنی بعد ازاں لڑائی جھگڑا ہاتھا پائی تک نوبت آجاتی ہے دوسرے کو کم تر،حقیر جان کر نفرت کرنے کی دوسری وجہ خود سری،خود پسندی اور بلاوجہ اپنے آپ کو حق پر جانتے ہوئے خود کو مکمل ایماندار انسان سمجھنا ہوتا ہے ہمیشہ خود کو کم درجہ پر رکھ کر ہی اپنی اصلاح کی جا سکتی ہے دوسرے کی بات سن کر اس پر غور کرنے سے اپنی غلطی درست کرنے کا بہترین موقع ملتا ہے جہاں انسان قریب بستے ہوں ایک دوسرے کے سامنے ہر وقت آتے ہوں وہاں بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے نفرت نہ ہو نفرت کا جذبہ رکھنے سے مخالف کا کچھ نہیں بگڑتا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے

نفرت ایسی چیز ہے جو بڑھانے سے بڑھتی ہی رہتی ہے جن معاشروں میں قانون کی عملداری کمزورہو وہاں نفرتیں ناانصافی کی وجہ سے جنم لیتی ہیں مسلمان تو دوسرے مسلمان بھائی کے بغیر مکمل ہی نہیں اس کی نیکی کا دارومدار ہی اس پر ہے کہ اس کی زبان اور عمل سے دوسرا مسلمان تکلیف میں نہ ہو،ہر ایک بہترین انسان بننا اور اچھے مسلمان کی حیثیت سے معاشرے میں رہنا چاہتا ہے وہ شخص بہت بد قسمت ہوتا ہے جس کو ایسے لوگوں کا ساتھ میسر آتا ہے جو فتنہ پرور،لالچی،خودغرض اور حلال و حرام کی تمیز نہ رکھنے والابد اخلاقی کی عملی تصویر ہوتے ہیں اور چرب زبانی سے سادہ لوح شخص کو یقین دلانے میں کامیاب رہتے ہیں کہ وہی اس کے ہمدرد ہیں حالانکہ سب سے بڑھ کر اس کے دشمن ہوتے ہیں آج مہنگائی، ناانصافی کی وجہ سے نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ایک دوسرے پر رحم نہیں کر رہے حالات کو سنوارنے کے بجائے دن گزارنے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں

نفرت ہمارے اندر احساس ہمدردی پیدا نہیں ہونے دے رہی نفرت کو بنیاد بنا کر انتقامی کاروائیاں کرتے ہیں وقت دولت لگاتے ہیں بالآخر ہارجاتے ہیں نفرت کی جیت کبھی نہیں ہوتی ہمیشہ شکست ہوتی ہے کیونکہ مسلمان نفرت رکھتا ہی نہیں نفرت کرنے والوں کو اپنے طرز عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے قومی سطح پر پسند اور نا پسند کی جو مہم چل رہی ہے اس کا نتیجہ کیا نکلا ایک ساتھ سیاسی قیادت بیٹھنے کو تیار نہیں نفرت کے پرچار سے عوام نے اپنی رائے بنا رکھی ہے،کرپشن کے چرچے وسائل پر قبضے نے صورتحال اور پیچیدہ بنا دی ہے خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے رد عمل کا نہ ہونا بڑے سانحہ کی نشاندہی ہوتا ہے ہمیں نفرت نے تقسیم کیا ہے اور نفرت کا خاتمہ ہی اتحاد پیدا کرے گا جب تک قومی اتفاق رائے کا 10سالہ اعلانیہ پلان ترتیب نہیں دیا جائے گا اس کی تمام فریق پاسداری کریں تب ہی نفرت کا خاتمہ ہوگا اس وقت عام لوگ لا تعلق ہوجارہے ہیں بے اختیاری کا یہ عالم ہے کہ کسی کے بارے شکایت تک زبان پر نہیں لا رہے احتجاج تو دور الگ تھلگ ہو جانے میں عافیت سمجھ بیٹھے ہیں

جس تیزی سے نچلے طبقہ کی مالی حالت بگڑ
رہی ہے اسطرح چند ماہ میں ملک کی آدھی آبادی غربت، بھوک کا شکار ہونے کا خدشہ ہے منصوبہ سازوں کو اپنے اقدامات کا رخ عام آدمی کی جانب کرنی کی ضرورت ہے روز گار ختم ہو رہے ہیں ایسے کاموں کو جاری کرنے کی ضرورت ہے جس سے روزگار پیدا ہو ہماری معیشت کی ریڈھ کی ہڈی زراعت ہے کھاد بیج اور دوائیوں میں ملاوٹ نے اس شعبہ کو تباہ کردیا ہے رہی سہی کسرپیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمت اور بجلی کے بلوں نے نکال دی ہے سب سے بڑھ کر معاشرتی نفرت نے ہمیں تقسیم کر رکھا ہے جس طرح مذہب،سیاست،قوم،برادری،قبیلہ کے نام پر تقسیم کے عمل سے گزر رہے ہیں اس سے صرف اور صرف نفرت اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کے کچھ ہاتھ نہیں آرہا ہے خوشحالی کی منزل باہمی اتحاد اتفاق سے حاصل ہوتی ہے نفرت اور تقسیم سے نہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں