چیف ایڈیٹر پنڈی پوسٹ عبدالخطیب نے صحافت کو خدمت کا شعار بنایا

روات شہر سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع موہڑہ بھٹاں کلر سیداں سڑک پر واقع ہے۔ صاف ستھرا ماحول کشادہ سڑکیں۔ حد نگاہ تک پھیلے ہوئے مختلف فصلوں سے لہلہا تے کھیت کہیں کہیں برگد کے دیو قامت درخت اُن پر پرندوں کی چہچاہٹ صبح وشام دلکش اور دلفریب منظر پیش کرتے ہیں۔یہاں مختلف قبائل اور نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں کے باسیوں کا ایک خوبصورت رنگ برنگا گلدستہ ہے جس کو کلمہ طیبہ کی مالا نے موتیوں کی طرح باہم الفت محبت کے رشتہ میں پر وئے رکھا ہے ہے

راقم الحروف جب یہاں وارد ہوا تو کسی کے ساتھ کوئی شناسائی نہ تھی دن گذرتے گئے راہ ورسم بڑھتے گئے ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جو انتہائی جاذب النظر، دلکش باکر دار شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کے دفترکے باہر لکھا تھا صحافت برائے خدمت، ہفت روزہ اخبار پنڈی پوسٹ میں نے سوچا یہ کس طرح کا نعرہ ہے صحافت برائے خدمت میں ان کے ذرا اور قریب ہوتا گیا راقم نے بھی اپنے شوق اور علم کے مطابق اُن کے اخبار میں لکھنے کی جسارت کی معلوم ہوا کہ وہ صحافت کو برائے خدمت ہی کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں

اُنھوں نے اپنے اس اخبارکا آغاز 2مئی 2012کو کیا اور 2مئی 2012کو اُن کی اس خدمت کو بارہ سال مکمل ہو جائیں گے ہم قارئین دعا گو ہیں کہ اللہ اُن کی خدمت کے اس جذبہ کو سلامت رکھے تاکہ وہ عوام الناس کو اپنے اخبارکے ذریعے بیدار رکھیں عبد الخطیب صاحب اخبار پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈ یٹر ہیں انھوں نے ایک غریب خاندان میں آنکھ کھولی۔ اس فقر پر اُن کو ملال نہیں فخر ہے۔ ایک غریب خاندان میں پیدا ہونے والے فرد نے اپنی محنت‘استقامت، بلند حوصلہ‘ جہدتسلسل، اعلیٰ کردار، حسن اخلاق، خوش گفتاری اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا اور عزت و احترام کا مقام پایا۔ اپنے اور غیر سارے ہی اُن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں

پر ائمری تاگر یجوایشن سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم مکمل کی غریب باپ کی محنت اور رزق حلال نے اُن کی راہیں کھول دیں۔وہ ایک بے باک، نڈر، محنتی مخلص اور ہمدرد انسان ہیں قبیلائی اور علاقائی تعصب سے کوسوں دور۔ اپنائیت، مہمان نوازی خاطر تواضعی اس طرح کہ جو بھی ان سے ملتا ہے وہ ان کو اپناہی سمجھنے لگتا ہے۔ وہ لوکل کو نسل کے ممبر بھی رہے اور اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی اور فلاح وبہبود کے لئے ہمہ وقت کو شاں رہے ان کے والدین کا تعلق کشمیرکے ضلع میر پور سے ہے۔ جنہوں نے1964 میں اپنا سب کچھ مال و جائیداد کی قربانی پاکستان کے لیئے پیش کی اور منگلا ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ نہ بنے

انھوں نے سب کچھ قربان کر کے پاکستان کو روشن کر دیا جہاں جہاں تک برقی قمقمے روشن ہیں اُن کے دل وجگر کے لہو سے روشن ہیں پاکستانی قوم کو ایسے مایا نا ز سپوتوں کا ممنون احسان مند ہونا چاہیے کہ جنھوں نے اپنے گھربار یہاں تک کہ اس نوزائیدہ مملکت کے لئے اپنے آباؤاجداد کے قبرستان تک پانی میں ڈبو دیے اور حرف شکایت تک زبان پر نہ لائے۔ ورنہ اہل پاکستان آج تک کالا باغ ڈیم کیوں نہ بنا سکے۔یہ کہنا تو آسان ہے لیکن قربانی دینا بہت مشکل ہے۔گزشتہ سال جب اُن کے گھر اشاعت کے گیارہ سال مکمل ہونے پر جو تقریب منعقدہوئی تھی راقم اس تقریب میں موجود تھا۔ اخبار کے حوالے سے حاضرین اور مقررین کے جو تاثرات تھے

اُن سے میں بہت متاثرہوا اور پھر ایک سال ہو چکا ہے اُن کے اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے وہ اخبار کو پورا وقت دیتے ہیں۔ تازہ ترین خبروں کے ساتھ ساتھ علاقائی کلچر و ثقافت کو اجاگر
کرنا، علاقوں میں واقع مختلف شخصیت کا تعارف بلامسلک و جماعت و سیاسی وابستگی۔ تعلیمی خبریں معاشی خبریں‘ معلومات سے بھر پور کالم، اورہر پڑھے لکھے شخص کے لیے اظہار رائے کا پلیٹ فارم – بچوں کے لئے کہا نیاں حالات حاضرہ پر مشتمل ڈائریاں‘ اشتہارات‘ تعریف و تنقید حق بات ببانگ دھل کہنا۔ اگر چہ بعض اوقات مسائل و مشکلات پیدا ہوتی ہیں لیکن حق اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔

ہم اُن کے اخبار لے بارہ سال مکمل ہونے پر اس کامیاب اشاعت پر اُن کو مبارک باد دیتے ہیں اور ان کے لیے دعا گو ہیں کہ ا للہ اُن کو ہمت و توفیق عطا فر مائے ان بارہ سالوں میں اُن کے دوبھائی جواُن کے مضبوط بازو تھے اللہ نے اُن کو اپنے پاس بلا لیا اللہ اس صدمہ کو بر داشت کرنے کی اُنھیں توفیق دے آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں