100

بدعنوانی سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہونے لگیں

مہنگائی کے طوفان سے ہر ایک متاثر ہے اور شکوہ کناں بھی کہ گزر بسر مشکل ہوتی جا رہی ہے بہت اور اثاثہ جات میں جس تیزی سے کمی ہوتی جا رہی ہے اس سے تو بہت جلد غربت کی لکیر کے نیچے زیادہ لوگ چلے جائیں گے۔ موجودہ حکومت کے اقدامات کا زیادہ تر محور غیر قانونی کاروباری رستوں کی بندش، بجلی گیس کی چوری م کو روکنے پر ہے۔ جس کے لئے رشوت کا استعمال ہوتا ہے۔ جائز کاموں کی خاطر بھی رشوت ہے بھتہ خوری، پرچی مافیا (غیر قانونی پارکنگ اور روڈ پرسواریاں اٹھانے والوں سے سر عام وصولی) اس پر کام کی ضرورت ہے۔ ان بااثر لوگوں پر حکومت ہی ہاتھ ڈال سکتی ہے عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ افسران کے ساتھ ان مافیاز کے جو کنکشن ہیں ان کو توڑنے کے لئے کام کی ضرورت ہے

۔ یہاں فٹ پاتھ پر جوتے مرمت کرنے والے سے بھی پرچی کے نام پر رقم لی جاتی ہے حکومتیں بر وقت کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔جی ہاں کیوں نہیں قوانین موجود ہیں ان پر صرف روح کے عین مطابق عملدرآمد کرانے والے آفیسرز کی ضرورت ہے وفاقی نگران حکومت نے واضح اقدامات کا اعلان کر دیا ہے اب صوبائی حکومتوں سے بھی واضح اعلان کے بعد عملدرآمد کی ضرورت ہے صوبائی محکموں کے بعد ضلعی اور تحصیل کی سطح پر بھی ایسے اقدامات کا نظر آنا ضروری ہے اگر وفاقی حکومت کے اقدامات کے فوائد عام تک نہ پہنچ پائے تو اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی کہ دوبارہ عام لوگوں کو مانیاز کے سر پرستوں،رشوت خوروں کے پشت پناہوں اور بھتہ پرچی کے ٹھیکیداروں کے حوالے کرنے کا انتظام کر دیں۔ اگر جان چھڑانے کا مکمل ارادہ کر لیا گیا ہے تو پھر کر گزرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرنا چاہئے اب نہیں تو کبھی نہیں. جیسے مصمم! ارادہ کے ہی سب ممکن ہو گا۔ عام آدمی کو قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل در کار ر ہے اس رستے میں جو بھی رکاوٹ ہو

اس کو ختم کرنے میں رعایت نہیں کرنی چاہئے۔ اگر عارضی انتظام چلانا مقصود ہے عارضی نقصان پورا کرنا ہدف ہے تو اتنے بڑے آپر یشن کی تیاری بے سود ہوگی۔ گذشتہ 25 سال ان بھول بھلیوں کا شکار ہو چکے اب مزید سنہرے خواب عام آدمی دیکھنے سے عاجز آ گیا ہے اسی لئے ان اعلانات پر خیر مقدمی بیانات، عام آدمی کا سرد رویہ اسی وجہ سے ہے اتنی امیدیں پالنے کے باوجود عام آدمی کے ہاتھ کچھ نہیں آتا غیر قانونی تجارت بجلی گیس چوری،رشوت، بھتہ خوری، مڈل مین کی من مانی کے خاتمے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ E کرنسی کی باز گشت بھی سنائی دی جا رہی ہے۔ بلاشبہ یہ بہت بڑا تجربہ ہوگا کئی خلیجی ممالک 20 سال قبل یہ کام کر چکے ہیں نوٹ رکھنے،گننے، سنبھالنے اور صندوقوں میں بند رکھنے کا وقت اب نہیں ہے کرنسی کا کسی نہ کسی بینکنگ چینل میں رہنا بے حد ضروری ہے جب لین دین ڈیجیٹل بنیادوں پر ہوگا تو ہر روپیہ حکومت کے علم میں ہوگا مگر حکومت کے بنائے مالیاتی بندوبست سے باہر کسی کے گھر میں اربوں کی موجودگی یہ ریاستی مالیاتی نظام کے لئے بہت بڑا نشان ہے

۔ ڈیجیٹل لین دین کو کچھ عرصہ تک ٹیکس اور سروس چار جز سے مستثنیٰ رکھ کر ہر ایک کے لئے آسان بنایا جا سکتا ہے یہ بے شک ایمنسٹی کی نئی قسم ہو مگر کرنسی کو کسی دستاویزی شکل میں رکھنے کے لئے اس کی ضرورت ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو حکومتیں اٹھارہی ہیں اب عام آدمی نے بھی از خود کافی کام کرتا ہے جس سے اس کی زندگی پر بڑا مالی بوجھ کم ہو۔فضول اور مالی بوجھ بننے والے رواج کا خاتمہ آن کھڑا ہوا ہے اگر اتنی مہنگائی کے باوجود ہم مالیاتی بوجھ بننے والے رسم و رواج کو گلے سے لگائے رکھیں تو اس سے بڑھ کر حماقت کون سی ہوگی۔

گزشتہ روز ایک فوتگی کے پہلے دن کے اخراجات جاننے کا موقع ملا کھانا ایک لا کھ اور دیگر چیزوں کے
اخراجات ملا کر دو لاکھ پہلے دن کا ہوئے میں ایک ولیمے میں شرکت کا موقع ملا تو 400آدمیوں کا ساڑھے چھے لاکھ سے زیادہ اخراجات ادا کئے گئے۔اس بے انتہا دولت کو نہ تو غیر یبوں مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ کیا بلکہ اچھے کھاتے پیتے صاحب حیثیت لوگوں پر یہ رقم خرچ ہوئی تعلیمی اداروں کے اخراجات اسے سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں ٹرا نسپورٹ کے اخراجات سے تو اس قدر عام آدمی عاجز آ چکا ہے کہ سفر کرنے کے نام سے ہی ڈر لگتا ہے حکومتیں اپنا کام اعلیٰ سطح پر جاری رکھیں۔ عام آدمی اپنے طور غیر ضروری اخراجات کو کم کرے، ذرائع آمدن کو بڑھانے کی کوشش کی جائے حکومت بھتہ خوروں، رشوت خوروں غیر ضروری منافع کمانے والے تاجروں کے رستے مسدود کرے اور عام آدمی اپنے طرز زندگی کو بدل کر بہتری کی کوشش کر ے شاید اسطرح غربت بھوک سے ملک کی اکثر آبادی بچ جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں