211

خاندان

ہماری معاشرتی زندگی کی بنیادی اکائی خاندان ہے خاندان میاں بیوی، بہن بھائیوں اور بیٹے بیٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے اس میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا ہے۔ بہو پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بھتیجے بھتیجیاں بھا نجے بھانجیاں شامل ہوتے ہیں چچا ماموں ان کی اولادیں جن کو عرف عام میں (cousins) کہا جاتا ہے شامل ہوتے ہیں اس طرح خاندان مجموعی طور پر کئی سو نفوس پر مشتمل ہوتا ہے۔ رشتوں کے درمیان ہمدردی انس،بھائی چارہ، عزت و احترام کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے خاندان کی عزت ایک ہوتی ہے خاندان میں با قاعدہ سربراہی تو نہیں ہوتی مگر عمر اور تجربے کی وجہ سے با اثر فرد غیر اعلانیہ سر براہ ہوتا ہے خاندان کی خوبصورتی اور بناوٹ اس کی رشتوں میں ترتیب ہوتی ہے

۔ جب ماں اور باپ کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہوتا ہے تو بچوں کا ربط قریبی ہوتا ہے ایک ہی جگہ پر بسنے والے خاندان کے افراد میل جول کی وجہ سے مضبوط ہوتے ہیں، خاندان کی پہچان اس کا نظم و ضبط حسن اخلاق اور تربیت ہوتی ہے کئی خاندان ایک قوم سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ براداری کہلاتے ہیں اور کئی برادریوں کے ملنے سے ایک قوم کی تشکیل ہوتی ہے ان خاندانوں کے اپنے اصول قوانین ہوتے ہیں اسی طرح ہیں گاؤں کے اصول ضابطے جو باہمی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر بنتے ہیں الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہمارے آباؤو اجداد ایک سو سال سے ان غیر روایتی اصولوں کے تحت کامیابی سے خاندان برادریوں کے نظام چلاتے آرہے ہیں۔ حکومتی بندوبست بھی گاؤں کی حد بندی،رستوں کی تشکیل سہولت کی فراہمی گاؤں کی ساخت کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہے

گاؤں کا ترقیاتی کاموں کا معیار رواج ایک دوسرے سے برتاؤ وہاں کی برادریوں خاندانوں کے اتقاق اتحاد و با ہمی عزت و احترام کا حقیقی مظہر ہوتا ہے گاؤں میں چند معتبر اشخاص جن کی بات کو دھیان سے سنا جاتا ہو ان کا ہونا غنیمت کا حامل ہوتا ہے اور ایسے آدمیوں سے گاؤں کا خالی ہوجانا اتنا ہی مصیبت کی وجہ بنتا ہے جب سے گاؤں زیرک، معاملہ فہم لوگوں سے خالی ہوگئے ہیں فتنہ و فساد سے شغف رکھنے والے حاوی ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل ایک دو سے میل جول در کنار تعارف کی محتاج ہو گئی ہے ملکی حالات نے دوبارہ ایک دوسرے سے میل جول کی طرف متوجہ کیا ہے ہماری زیادہ ضرورتیں ایک دوسرے سے تعلق رکھ کر پوری کر سکتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کی تباہی خاندان سے شروع ہوتی ہے خاندان برادری کو متاثر کرتے ہیں برادری کی دست برد ہمارے گاؤں، شہر غرض کہ نظام زندگی کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتی ہے اور اس تباہی کا ذمہ بہر حال فرد ہی ہوتا ہے

جس کی من مانی، خود غرضی اور بے وقوفی معاشرتی نظام کو برباد کرتی ہے۔ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی بنیادی سطح پر کی جانا ضروری ہوتا ہے۔ خاندان برادریاں علاقہ میں سب ایک رشتے کے نیچے آتے ہیں ہمارا دین مسلمان کو مسلمان کا بھائی بناتا ہے۔ جب ہم اتنے مضبوط رشتہ رکھتے ہوں تو ہمارے درمیان اتنی حقارت، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہش، انتقام اور تکلیف دینے کے لئے کا جذبہ کیوں ہو۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم ہمدردی محبت اور امن سے اسی صورت رہ سکتے ہیں جب ہم دوسروں کو بھائی سمجھیں گے، اخوت، بھائی چارہ ہی میں ہماری بحیثیت قوم بقا ہے۔ جب تک ہم دوسرے بھائی کی حق تلفی سے باز نہیں آئیں گے اپنے جیسے پاکستانی کو برابر نہیں سمجھیں گے اس وقت تک بحیثیت قوم ہماری پہچان نہیں بن سکتی فرد سے قومیں بنتی ہیں تو یہ سفر بھی تشنہ تکمیل ہے جس طرح خاندان ایک فتنہ پرور اور خود غرض آدمی کے ہاتھوں تباہ ہوتے ہیں اسی طرح قومیں بھی فتنوں اور ذاتی مفاد کی خاطر کام کر گزرنے والوں کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہیں۔

جن لوگوں کو قوموں کے بنانے
کی ذمہ داریاں رب کائنات کی طرف سے تفویض ہوتی ہیں ان کو اس کے لئے نیک نیتی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت جس بڑی سرجری کی طرف تیاری ہے اگر اس کا مقصود پا کستا نیوں کو ایک لڑی میں پرونا ہے تو یہ خوش قسمتی ہوگی اب گوادر سے لے کر گلگت بلستستان تک کے شہری ایک جیسی سہولت کے متمنی ہیں اس کے لئے کام ہی ہماری بقا کی ضمانت ہوگا۔ شہروں کی رونقیں تمام پاکستانیوں کی حالت کی عکاس نہیں ہیں دیہی علاقے ارباب اختیار کی نظر کرم کے تاحال منتظر ہیں، وڈیروں، ڈاکووں، رسہ گیروں اور مقامی کھڑپینچوں پنجہ استبداد سے رہائی کے اب بھی منتظر ہیں پنجاب،سندھ، بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں اب بھی تھا نہ، سکول اور یو نین کو نسلیں فعال نہیں ہیں ان علاقوں کی رسائی قومی رٹ تک کیسے ہوگی فرد خاندان برادری سے معزز شہری ملک کا درجہ حاصل کرنے کی طرف ابھی سفر باقی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں