91

“روٹی کپڑااور مکان”/تحریر:عمار یاسر

آج کی تحریر کا موضوع بظاہر ایک سیاسی پارٹی کی طرف اشارہ کرتادکھائی دیتا ہے۔ لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ میں کسی سیاسی پارٹی یا ان کے ایجا د کیے ہوئے “روٹی،کپڑا،مکان”نامی نعرے پر کوئی تنقید کروں۔ میرا مقصد صرف اور صرف عوامی مسائل ہیں۔کم فہم وسادہ مزاج لوگوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی اور صدیوں سے چلے آنے والے نظام میں موجود خرابیاں آپ کے رو برو کرنا ہے۔ میں معذرت خواہ ہوں ان تمام باحیثیت شخصیات سے جو سالوں سے عوام پر حاکم و قابض ہونے کے باوجود آج تک عوام کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کرسکی کہ آج غیر ارادتاً ہی سہی مگر شاید میری قلم کا نشانہ بنیں۔ عوام پاکستان کو ان تین الفاظ “روٹی،کپڑا،مکان”میں الجھا کررکھ دیا گیا ہے ۔میں کم سے کم الفاظ میں زیادہ موثر طریقے سے ان الفاظ”روٹی،کپڑا،مکان”پر اپنی رائے آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔
علی ایک کم سن نوجوان تھا۔ علی کے والد محترم ایک مفلس اور سادہ مزاج آدمی تھے۔ باوجود اس کے کہ علی ایک قابل اور ہونہار طالب علم تھا اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکا اور محنت مزدوری کرکے بامشکل دو وقت کی روٹی،تن پر عام سا کپڑااور رہنے کو ایک چھوٹے مکان کی دیواری کھڑی کرنے کی کوششوں میں مشغول ہوگیا۔ آج کافی سال گزر جانے کے بعد علی کا بیٹا اپنے تعلیمی سفر کو مالی حالات و دیگر مسائل زندگی کی وجہ سے ترک کرتے ہوئے “روٹی،کپڑا،مکان”نامی بنیادی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لیے تھکا دینے والی کوششوں میں لگ گیا۔ اور یوں یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا گیا
دیوار کی دوسری طرف کا منظر آپ کے سامنے رکھوں گا۔”روٹی، کپڑا،مکان”نامی عظیم الشان نعرے کے بانی موجد حضرات کل ہمارے آباؤاجداد پر حاکم تھے اور آج ان کی نئی نسل ہمیں اپنا ذہنی غلام بنائے ہوئے ہے اوربہت دکھ کے ساتھ تحریر کررہا ہوں اگر یہ نظام نہ بدلا تو یقیناًہماری آئندہ نسلیں بھی غلام ہی پیدا ہوں گی
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا کے نقشے پر ایک قوم ایسی بھی موجود ہے جس کو اب تک زندگی کے لوازمات ہی مکمل طور پر دستیاب نہیں ہیں جبکہ اس دنیا میں اکثرو بیشتر ممالک میں یہ تمام بنیادی ضروریات عوام کو عمر کے ایک خاص حصے تک مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ چند اہم نکات آپ کے گوش گزار کروں گا۔ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ حضرات جو یہ نعرہ لگاتے ہیں ان کو اور ان کی اولاد کو کبھی ان بنیادی ضرورتوں کی فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ۔”روٹی، کپڑا،مکان”ہماری بنیادی ضرورت ہیں۔لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی روٹی سے ہمارے جسموں کی نشونما تو کردی جاتی ہے مگر ہمارے ذہنوں کی پرورش کو روک دیاجاتا ہے۔ علم بھی ایک بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر انسان کبھی انسانیت کے مرتبے پر فائز نہیں ہوسکتا۔ علم سے ہی ذہن کی نشونما ممکن ہے ۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ ہمیں “روٹی،کپڑا، مکان”میں پھنسائے رکھنے والے خود آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں جبکہ اپنی رعائیہ کو محض تین بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کا خواب دکھاتے ہیں۔ درحقیقت وجہ یہی ہے کہ ہم نسل در نسل غلام چلے آرہے ہیں۔ حد افسوس تو یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کو اس غلامی کا احساس ہی نہیں ہوتا اور اکثر و بیشتر اس غلامی کو باعث عزت و رفعت سمجھتے ہیں
میں شرمندہ ہوں کہ اے وطن عزیز!کہ تیری رعائیہ پر ظلم کی حد یہ ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے کے قاتل کو صرف اس لیے معاف کرتی ہے کہ اس کی جوان بیٹیاں ابھی زندہ ہیں۔اور میں ایک ایسی جمہوری ریاست کا حصہ ہوں جہاں پر ایک بوڑھی عورت بستر پر عدم فراہمی کی وجہ سے ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر پڑی رہتی ہے اور مستقل طور پر ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ جہاں پر ایک ماں کواپنے بچے کوجنم دینے کے لیے ایک بند کمرہ اور بستر تک فراہم نہیں کیا جاسکتا اور ایک سرکاری ہسپتال کی سیڑھیوں پروہ اپنے بچے کو جنم دیتی ہے۔ کیا ایک عام انسان ہونے کے ناطے صحت و معالجے کی تمام سہولیات پر ہمارا کوئی حق ہیں؟میں آپ قارئین سے جواب طلب ہوں۔
دوسری طرف اس جمہوری ریاست میں خاص طبقے کے لوگوں کو اگر سرداد محسوس ہوتو اس کی جانچ برطانیہ کے ہسپتالوں سے کروائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے
میں اس نعرے کا خاتمہ تو نہیں چاہتا مگر “روٹی،کپڑا، مکان”نامی نعر ہ میں تبدیلی ضرورچاہوں گا۔ میں اپنی اس تحریر میں کھل کر ان تمام شخصیات سے جو اس نعرے کی صدائیں بلند کیے نظر آتے ہیں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ہمیں”روٹی،کپڑا، مکان”کے ساتھ ساتھ صحت، تعلیم اور انصاف بھی فراہم کیا جائے۔ میں اگر غلطی پر ہوں تو آپ سے اصلاح چاہوں گا۔میرا مطالبہ “روٹی،کپڑا، مکان،صحت،تعلیم ،انصاف” ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جس دن صحیح معنوں میں ہمارے ان مطالبات کو پورا کیا گیا تو وہ دن اس پٹواری نظام،موروثی سیاست،رشوت،اقرباپروری ،کرپشن اور دیگر بہت سی برائیوں کے خاتمے کا آخری دن ہوگا۔دعاگوہوں خداوند کریم ملک پاکستان کی خیرفرمائے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہوخیال جسے آپ اپنی حالت بدلنے کا{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں