ملک امریز
قارئین کرام الحمدو للہ پاکستان کو معرض و جود میں آئے ہوئے 70سال مکمل ہو چکے ا س دوران 35برس مختلف مارشل لاؤں کی نذر ہوگئے باقی ماندہ 35برسوں میں سترہ وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری کرنے سے قبل ہی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے بڑی معذرت کے ساتھ اس میں ایک تو وہ طاقتیں جو پاکستان میں ترقی ہوتی نہیں دیکھ سکتی ان کے ایجنڈے کے آلہ کار یہ سیاستدان خود بنتے ہیں ۔ایوب خان کا مارشل لاء ہو یا ضیاء الحق کا 85والا غیر جماعتی انتخاب 1999والا پرویز مشرف کا مارشل لاء یہ سیاستدان آدھا تیری آدھا بٹیر والا کردار ادا کرتے ہیں آج تک قانون میں جو بھی ترامیم ہوئی وہ ان سیاستدانوں نے خود کرائی اگر 1973والا آئین اپنی اصل حالت میں واپس آجائے کسی کو شب خون مارنے کی جرات نہ ہو ایک پارٹی دوسری کو نیچا دکھانے اور ہوس اقتدار کیلئے آمر کی گود میں بیٹھ جاتی ہے وہ لولی لنگڑی اسمبلی بنا کر ان سے من پسند قوانین بنوا لیتے ہیں 1985ء کی اسمبلی نے آٹھویں ترمیم کے تحت58/2Bبنایا ان ہی سیاستدانوں نے صدر کا اختیار دیا اسمبلی توڑنے کا ایک بار محمد خان جونیجو دو بار محترمہ بینظیر بھٹو شہید دو بار میاں محمد نواز شریف الغرض پانچ وزیر اعظم پاکستان اس کالے قانون کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت سابق صدر آصف علی زرداری نے 58-2-Bجیسے کالے قانون کا خاتمہ کرتے ہوئے جمہوریت کو تو مضبوط کیا پر بدقسمتی سے 2002کی اسمبلی سے پرویز مشرف کا بنایا گیا قانون 62-63جس کی بھی بنیاد ان ہی سیاستدانوں نے رکھی تھی اسمبلی سے قانون منظور کرایااس کی بھینٹ بھی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور اب میاں محمد نواز شریف چڑھ گئے ۔ عمران خان جو لڈیاں ڈال رہے ہیں اور مٹھایاں تقسیم کر رہے ہیں یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ وہ جو بنیاد کھو د رہے ہیں کیا اس پر ان کے اقتدار کی عمارت دو سال بھی کھڑی رہ سکے گی یا صرف نام کے ساتھ وزیر اعظم کا ٹائٹل لگانا ہے یا ملک و قوم کی ترقی کیلئے ان کے پاس کوئی وژن ہے آج تمام کے تمام سیاستدانوں کو قومی اسمبلی سے قوانین منظور کرانے چاہیے صرف اتنا قانون بنا دیا جائے کرپشن کرنے والے شخص کو اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی پابندی ۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر الیکشن گوشوارے جمع کرائے جائیں ۔10لینڈ کروزر والا بلٹ پروف گاڑی کا مالک بڑے فخر سے الیکشن کمیشن میں کہتا ہے میرے پاس کوئی گاڑی نہیں کوئی بنگلہ نہیں کوئی بنک بیلنس نہیں اور الیکشن کمیشن وہ بات مان لیتی ہے ۔ جو پہلی کرپشن کی بنیا دہے آج 2017میں 80فیصد ارکان پارلیمنٹ کے پاس گھر اور گاڑی نہیں وہ اربوں پتی کیسے ہیں اپوزیشن اور حکومت ایک منزل کے سوار ہیں مثبت تنقید جمہوریت کا حسن ہے اور پگڑیاں اچھالنا اور کردار کشی کرنا کیا پیغام دیتا ہے ۔138ممالک میں ہمارا کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے اس ملک کے سیاسی رہنما زانی و شرابی ہیں کیا ہماری آنے ولای نسلیں کہیں گی یہ تھے ہمارے رہنما جن کی پہچان کرپشن و بدکرداری بڑے افسوس کا آج مقام ہے رشوت کرپشن کردار کشی ہمیں سوشل میڈیا پر کیا پیغام دیا جا رہا ہے لیڈر تو باپ ہوتا ہے خواہ جس جماعت کا ہو ہمارے آقا و مولا جناب محمد مصطفی ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:’’ کسی کے جھوٹے خدا کو جھوٹا نہ کہو کہیں وہ تمہارے سچے خدا کو نہ کہے‘‘۔ کیا عمران خان نے سو شل میڈیا اسی لیے متعارف کرایا نہ معاشرہ نہ میری زبان اس کی اجازت دیتی ہے پر مجبور ہوں قلم ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی سوشل میڈیا اس لیے ایجاد نہیں ہوا لوگوں کو گالیاں دو پگڑیاں اچھالو‘ شلواریں اتارو سوشل میڈیا ایجاد ہوا تھا مثبت کاموں کیلئے ملک و قوم کی ترقی کیلئے پاکستان میں تو جہالت ہی جہالت ہے آج ایجاد کرنے والے بھی شرمندہ ہوں گے تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین سے پرزور التماس ہے سوشل میڈیا پر ادب و احترام طریقہ اور سلیقہ والی باتیں شیئر کی جائیں ۔ گالی گلوچ کردار کشی سے اجتناب برتا جائے اور دنیا کو پیغام دیا جائے پاکستان ماشاء اللہ ایک اسلامی ریاست ہے اور اس میں رہنے والے ایک مہذب قوم ہیں اور دین اسلام پر کاربند ہیں جہاں بہنوں بیٹیوں کے سر پر دوپٹے پہنائے جاتے ہیں یہاں ان کی کردار کشی پر کروڑوں روپے خرچ نہیں کیے جاتے ۔میں ان سوشل میڈیا چیمپئنز سے ایک سوال کرتا ہوں جو آج کل آپ نے سوشل میڈیا پر تماشا لگایا ہوا ہے اگر آپ کی بہن یا بیٹی ہو اس کے ساتھ بھی یہی برتاؤ کرو تمام سیاستدانوں سے میرا یہ سوال ہے کسی کے پاس اگر جواب ہے تو بتائیں غریب عوام کے بارے میں کچھ سوچیں کوئی کام کر جائیں۔{jcomments on}
85