119

این اے 52 میں جمہوریت

محمد عثمان‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
روس کے حکمران جوزف سٹالن نے ایک دفعہ مرغا پارلیمنٹ لایا اور سب کے سامنے اس کے پر نوچنے شروع کر دئیے، مرغا درد سے بلبلاتا رہا مگر سٹالن نے اس کے سارے پَر نوچ دیئے پھر مرغے کو فرش پر پھینک دیا اور جیب سے کچھ دانے نکال کر مرغے کی طرف پھینک دئیے اور چلنے لگا، اسٹالن برابر دانا پھینکتا گیااور مرغا دانہ منہ میں ڈالتا ہوابرابر اس کے پیچھے چلتا رہا آخر کار وہ مرغا اسٹالن کے پیروں میں آکھڑا ہوا، اسٹالن نے اس کے بعد ایک تاریخی فقرہ بولا :
‘‘جمہوری سرمایہ درانہ ریاستوں کی عوام اس مرغے کی طرح ہوتی ہے ان کے حکمران عوام کاپہلے سب کچھ لوٹ کر انہیں اپاہج کردیتے ہیں اور بعد میں معمولی سی خوراک دے کر خود ان کا مسیحا بن جاتے ہیں
اگر دیکھا جائے تو ہمارا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے، پہلے چار سال کوئی کام نہ کرنا اور آخری سال میں سڑکیں ،نالیاں اور سوئی گیس کے نام پر ووٹ لے لئے جاتے ہیں۔ اس دفعہ بھی یہی ہو رہا ہے الیکشن کے وقت انہی نام نہاد ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگا جائے گا ، لیکن اگرآپ انہی ممبران سے نظام تعلیم، صحت اور انصاف کا پوچھیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔ پنجاب میں شہبازشریف حکومت کا دسواں سال ہے مگر تھانوں میں سوائے فرنٹ ڈیسک کے کوئی اور تبدیلی نظر نہیں آئی۔کیوں؟اس لئے کہ پولیس تو ہے ہی عوام کوڈرانے کے لئے، چاہے تو ماڈل ٹاؤن میں درجن سے زیادہ بندے قتل کرادو۔جبکہ خودانہیں سپریم کورٹ کے حکم پر بنی جے آئی ٹی بھی قصائی کی دکان لگتی ہے۔ حسین نواز کی تصویر کو سامنے رکھ کر باقاعدگی سے سرکاری اہلکاروں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں،کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے ملک میں حکمران طبقے کو سوال سننے کی عادت نہیں ہے۔آج کل رمضان کی وجہ سے پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کا بہت ذکر ہوتا ہے۔اگر آپ پھلوں یا سبزی کی دکان پر جائیں تو وہاں ریٹ لسٹ کے نام پر ایک کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے اس کی قیمتوں پر کبھی عمل نہیں ہوتا۔اگر آپ دکاندار سے پوچھیں تواس کا جواب ہے کہ یہ تومنڈی ریٹ ہے جس پر فروخت کرنے سے گھاٹا ہوتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمل درآمد کا ذمہ دار کون ہے اول تو پرائس مجسٹریٹ ہیں جو ان ریٹ لسٹوں کو لاگو نہیں کر سکتے یا پھر وہ افسران ہیں جو ہر روزوہ غلط ریٹ لسٹ جاری کرتے ہیں اور اس ریٹ لسٹ کے نام پر سات روپے فی دکاندار وصول کیا جاتا ہے۔ مگرہوتا کیا ہے؟ فقط شوبازیاں ،رمضان پیکج،اچانک دورے،چھاپے اور کبھی کبھار جرمانہ بھی کردیا جاتا ہے۔محکمہ تعلیم کے دفتر(ڈی۔ای۔او) چلے جائیں تو فائلوں کے پیٹ باہر نکلے ہوتے ہیں اور میٹرک کے امتحانی مراکز میں دیکھیں تو طلبہ کو بورڈ پر جواب لکھوائے جاتے ہیں ۔ کیوں؟ اس لئے کہ لیپ ٹاپ بانٹنا آسان اور تیزترین اشتہاربازی ہے اور محکمہ کو ٹھیک کرنا محنت والا کام ہے۔
اگر کلرسیداں کے حالات دیکھیں تو چوہدری نثار علی خان نے سڑکیں اور گلیاں ضرور پکی کروائی ہیں مگر نظام کی بہتری کے لئے کام نہیں کیا۔این اے باون کے پورے حلقے میں کوئی سرکاری استادہو یا سرکاری اہلکارمحکمانہ توسط سے نہیں بلکہ وفاقی وزیر داخلہ کے دفتر سے تعینات اور ٹرانسفر ہوتا ہے،اگر غلطی سے کبھی تھانے جانا ہو تو سچ اور جھوٹ سے زیادہ اہم کسی سیاسی شخص کی سفارش ہوتی ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ پولیس اہلکاروں کی تقرری محکمہ پولیس سے نہیں بلکہ سیاسی وفاداری کے اصول کے تحت ہوتی ہے۔ایک مثال ٹی ایم اے کلرسیداں میں لیگل ایڈوائز ر کی سیٹ کے لئے ہونے والی رسہ کشی ہے، مقررہ تاریخ تک ایک امیدوارنے کاغذات جمع کروائے مگر وفاداری کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سیاسی شخصیت کی تقرری کی سرتوڑ کوشش کی گئی جو بعض قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے نہ ہوسکی۔ترقیاتی کام(سڑکیں وغیرہ) کروانا بہت اچھی بات ہے مگر اصل کام نظام کی اصلاح ہے۔لیڈر وہی ہوتا ہے جو نسلوں کی بہتری کے لئے کام کرے تعلیم،صحت،اور سماجی انصاف دے۔ باقی مسائل تو رہے ایک طرف تعلیم سے جڑا ہر شخص جانتا ہے کہ میٹرک کے امتحانوں میں طلبہ کو بورڈ پر لکھوایا جاتا ہے مگر ہمارے ایجوکیشن کے چئمپئن ایم پی اے قمر الاسلام راجہ کا اس طرف دھیان نہیں جاتا۔ہاں چوہدری نثار علی خان کے ہر دورہ کلرسیداں میں سڑکوں کے لئے کڑوروں کی گرانٹس دی جاتی ہیں اگر سڑکوں سے لیڈرشپ کا گراف ناپا جاتا تو ملک ریاض شائد سب سے بڑا لیڈر ہوتا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں