165

این اے52چوہدری نثار کی سیاست/ عاطف افتخار

گزشتہ ہفتے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کلرسیداں کا دورہ کیا اور وہاں کے سیاسی معاملات کے حوالے سے کارکنان سے بات کی۔ واپسی پر انہوں نے مانکیالہ میں گردونواح کی یونین کونسلوں کے عوام سے خطاب کیا۔ اپنی تقریر کے آغاز ہی میں انہوں نےکہا کہ آ ج کی تقریب دو حصوں میں ہو گی پہلے حصے میں وہ اپنی بات کریں گے اور دوسرے حصے میں عوام الناس سے عیلحدہ ملاقات میں ان کے مسائل سنیں گے تاہم وہ عیلحدہ ملاقات یا عوام سے بات کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ چوہدری صاحب نے اپنی بات سنائی کسی کی نہ سنی اور اوراپنی مخصوص ٹیم کے حصار میں ان سے باتیں کرتے روانہ ہو گے۔ کیا عوام کو ان کے مسائل سننے کی نوید اس لیے سنائی گئی تھی کہ وہ خاموشی ان کی باتیں سن لیں اور کوئی مداخلت بھی نہ ہو ویسے بھی وزیر داخلہ کے بارے میں مشہور میں ہے کہ وہ اپنی سناتے ہیں اور کسی کی نہیں سنتے ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ چوہدری صاحب نے یونین کونسلوں کے چند چیئرمینوں سے بات کرنے کو ہی عوام کے مسائل سننا شمار کیا ہو۔ کیونکہ چوہدری صاحب ایک عام ووٹر سے شناسائی رکھنا مناسب نہیں سمجھتے اور اسی بات پر اکتفا کرے ہیں کہ علاقائی با اثر شخصیات کے ذریعے سے عام ووٹر کو پارٹی سے منسلک رکھیں۔سیاسی حالات تبیدل ہو چکے ہیں اور اس کا اظہار چوہدری صاحب کی تقریر سے بھی ہوا ہے۔ اب کی بار چوہدری صاحب نے ایک ایک ووٹ کی اہمیت پر بات کی ہے۔ ایسے علاقوں کے مسائل کو حل کرنا بھی اپنی ذمہ داری قرار دیا ہے جہاں سے ان کو شکست ہوئی ہے۔ یہ تبدیلی یکا یک نہیں آئی ہے یقنناً 2018 کے انتخابات کا منظر نامہ ان کے سامنے ہے کہا جارہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں این اے 52 اور این اے53 دونوں سے ان کے مدمقابل غلام سرور خان ہونگے۔ غلام سرور2002 اور 2013کے انتخابات میں چوہدری نثار کو این اے53 سے شکست دے چکے ہیں تاہم دونوں دفعہ چوہدری نثار این اے ۲۵ کی نشست سے جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچتے رہے اور انہیں یہ اعزار حاصل ہے کہ وہ 1985 سے مسلسل ایم این اے بن رہے ہیں لیکن آنے والے انتخابات میں غلام سرورخان کے دونوں حلقوں میں سے مدمقابل ہونے کی وجہ سے اس تسلسل کو برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ غلام سرور خان کے نچلی سطح تک عوام سے تعلقات ہیں وہ ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر غلام سرورخان کا رابطہ نمبر تو موجود ہے لیکن چوہدری نثار علی خان سے رابطہ کرنے کے لیے انہیں شیخ ساجد، شیخ اسلم یا راجہ لطیف سے رابطہ کرنا پڑتا ہے اور یہ ان حضرات کی صوابدید پر ہے کہ وہ جس کا کام چاہیں کرادیں جسے چاہیں نظر انداز کردیں۔ یونین کونسل ساگری کی ہی بات کرلیتے ہیں محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت میں کلاس فور کی بھرتیوں کا سیاسی کوٹہ ساگری کی مخصوص برادریوں میں ہی تقسیم ہو جاتا ہے کیا یونین کونسل ساگری کے دیگر دیہاتوں کے باسیوں کا یہ حق نہیں ہے کہ انہیں بھی ان ملازمتوں میں حصہ دیا جائے؟ یہی صورتحال این اے باون کے باقی علاقوں کی ہے۔ ساگری کا حوالہ اس لیے دیا کیونکہ میرا تعلق اسی یونین کونسل سے ہے اور میں اس بندر بانٹ کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں۔ یونین کونسل ساگری میں مانکیالہ اور ڈہکالہ، ساگری کے بعد دو بڑے دیہات ہیں ان کے پاس سڑک ہے نہ گیس2013 کے الیکشن میں این اے52 سے چوہدری نثار علی خان ۳۴۱۳۳۱ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور ان کے مقابلے میں کرنل اجمل صابر نے ۹۶۷۹۶ ووٹ لیے جبکہ راجہ بشارت نے ۶۶۸۳۴ ووٹ لیے مجموعی طور پر یہ ووٹ ۵۳۶۳۱۱ ہے اوراین اے ۳۵ میں غلام سرورخان نے تقریباً آٹھ ہزار ووٹ سے سبقت حاصل کی۔2018کے انتخابات میں واضح نظر آ رہا ہے کہ ق لیگ کا ووٹ بھی تحریک انصاف کو جائے گا اس کے علاوہ یہ بھی باز گشت ہے کہ ان حلقوں میں چوہدری نثار کے خلاف کثیر الجماعتی اتحاد بھی تشکیل پا سکتا ہے جس کے نتیجے میں زیادہ تر جماعتوں کا ووٹ غلام سرور کو جا سکتا ہے۔ آنے والے انتخابات کا منظرنامہ بہت دلچسپ ہے اور بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ان انتخابات میں عوام نے جہاں چوہدری نثار کی طرف سے ہونے والے وعدوں کے وفا یا نظرانداز ہونے پر اپنے اطمینان یا عدم اطمینان کا اظہار کرنا ہے تو وہیں وفاقی حکومت کی کارکردگی کا نقصان یا فائدہ بھی ان کے پلڑے میں جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کے وفاق میں حکومت کرنے کے بعد کسی پارٹی کے لیے اگلے انتخابات جیتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ ن لیگ کے بہت سے اہم علاقائی رہنما پہلے ہی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنا شروع ہو چکے ہیں۔ منظر نامہ بہت خوب ہے کیونکہ پہلی بار چوہدری صاحب کو ایک ایک ووٹ کی اہمیت کا احساس ہوا ہے ورنہ وہ تو پچاس ہزارسے زیادہ کی برتری پر بھی یہاں سے سیٹ جیتتے رہے ہیں۔کہاں تک سنائیں گے کہاں تک سنو گے۔ این اے باون کے عوام کی یہ بھی شکایت ہے کہ یہ حلقہ صرف کلر تک محدود نہیں ہے۔ روات سے کلر کے مابین بھی بہت سے مکین بستے ہیں جو متعدد مسائل کا شکار ہیں لیکن چوہدری صاحب کا کاروان اسلام اباد سے چلتا تو کلر جا کر رکتا ہے بلکہ خبر کی دوڑ میں سبقت لینے والا میڈیا بھی وزیرداخلہ کے تعاقب میں کلرسیداں سے شناسا ہو چکا ہے۔ کلرسیداں میں ہونے والے کاموں پر خوشی ہے لیکن اسی خوشی کو قریہ قریہ پنچنا چاہیے۔ قصبات اور شہروں کی ترقی میں دیہاتوں کو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ کلرسیداں کو ماڈل بننا چاہیے لیکن اسی کلرسیداں کی روڈ کے گردونواح ماڈل ویلجز بھی ہونے چاہیں۔ حلقے کیباسیوں کی صورتحال دلچسپ ہے ایک ہی یونین کونسل کے ا?دھے علاقے سوئی گیس اور سڑک کی سہولت سے آراستہ ہیں تو باقی محروم ہیں اور جہاں سڑک نہیں وہاں گیس بھی نہیں، جیسے گیس پائپ لائن سے نہیں براستہ سڑک آتی ہے اور کچے راستے پر سفر نہیں کر سکتی ہے۔آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے چوہدری صاحب کو اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ عام ووٹر سے براہ راست شناسائی ہو گی تو ہی ان کے مسائل کا ادراک ممکن ہوگا۔ منتخب نمائندوں تک رسائی اور شناسائی کسی صاحب ثروت کو تو ہو سکتی ہے کہ لیکن غریب عوام کو نہیں ہے۔ چوہدری صاحب کے پرسنل سیکٹریوں، حتی کہ نو منتخب چیئرمینوں کی اپنی ترجیحات ہیں۔ درج بالا تحریر میں تمام تر تاثرات، احساسات اور تجزیات علاقے میں ن لیگ کے عام کارکنان کی من وعن ترجمانی نہیں ہیں تو اس سے قریب تر ضرور ہیں۔ یہ کوئی تنقید نہیں بلکہ نشاندہی ہے ان پہلووں کی کہ جن پر توجہ دینا بہت سے نقصانات کا ازالہ کر سکتا ہے اگر زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھا جائے تو۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں