134

این اے 50میں سیاسی گھما گھمی کا آغاز

ارسلان اصغر کیانی
نمائندہ پنڈی پوسٹ
الیکشن قریب آتے ہی سیاسی قائدین نے رابطہ مہم شروع کرکے ٹکٹوں کی دوڑ میں بھی شامل ہو گئے ہیں ایک وقت تھا جب حلقہ این اے 50 اور پی پی 2میں پیپلز پارٹی کا بول بالا تھا اور اسوقت غلام مرتضیٰ ستی ایک یونین کونسل سے اٹھ کر قومی اسمبلی میں پہنچے مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ تمام تو کوششوں کے باوجود اپنی آبائی یوسی سے اپنے بھتیجے کو کامیاب نہ کرا سکے خیر پہلے کرنل شبیر اعوان نے پی پی 2سے ہارنے کے بعد پیپلز پارٹی کو خیر آباد کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور مسلم لیگ ن کی طرح پیپلز پارٹی بھی دھڑے بندی کا شکار رہی کافی خاموشی کے بعد پارٹی نے سابق ایم این اے غلام مرتضیٰ ستی کو ڈویژنل صدر بنایالیکن آصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی اور مسلم لیگ کے ساتھ گٹھ جوڑ کی وجہ سے پیپلز پارٹی مقبولیت میں بہت کم ہو گئی دوسری جانب تحریک انصاف کے اپوزیشن کردار نے اسکے گرا ف میں اضافہ کر دیا اب ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ہو گا غلام مرتضیٰ ستی نے عمران خان سے ملاقات کر کے تحریک انصاف میں شمولیت اختیا کر لی اور شا ید ٹکٹ کے حوالہ سے بھی بات کی گئی ہو مگر غلام مرتضیٰ ستی کو اسوقت پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی طرف سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا جبکہ پی ٹی آئی کی تنظیمیں بھی ممکن اسکو پسند نہ کریں صداقت علی عباسی جہنوں نے اس پارٹی کیلئے محنت کی جب اسکا نام لینے والا کوئی نہ تھا آج اگر انکو نظر انداز کر کے نئے شامل ہونے والوں کوٹکٹ دیا گیا تو کارکن ورکرپریشان ضرور ہونگے صداقت علی عباسی اور راجہ طارق محمود مرتضی نے الیکشن مہم شروع کر رکھی ہے پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ تو پارلیمانی بورڈ یا عمران خان کریں گے مگر غلام مرتضیٰ ستی کو تحریک انصا ف میں شامل ہونے کے باوجود سخت محنت کرنا پڑے گی اور تحریک انصاف کی تنظیموں کو بھی اعتماد میں لانا ہو گا تحریک انصاف کی قیادت صداقت علی عباسی ، جاوید اقبال ستی ، سردار سلیم اور دیگر قیادت کو اعتماد میں لیکر ہی کوئی فیصلہ کرے گی اگر ایسا ہو جاتا ہے تو غلام مرتضیٰ ستی امیدوار ہوں یا صداقت علی عباسی وہ مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں حلقہ بندی کا فیصلہ مردم شماری کے بعد ہی ہو گا بہر حال مسلم لیگ ن کو اس مرتبہ مقابلہ سخت کرنا پڑے گا جماعت اسلامی کی طرف اگر سفیان عباسی امیدوار ہوئے تو بھی پوزیشن مختلف ہو گی تحریک انصاف پارٹی کو مزید مضبوط کرنے کیلئے مری اور کہوٹہ میں اعلیٰ قیادت کو بلا کر جلسہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے ادھر پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر چوہدری ظہیر سلطان نے بھی رابطہ مہم شروع کر دی ہے انکا کہنا ہے کہ اس مرتبہ ٹکٹ جیالوں کو ملے گا بھگوڑوں کا کوئی مستقبل نہیں پیپلز پارٹی کا شفقت عباسی ، شنا اللہ ستی میں سے کسی ایک ٹکٹ ملے گامسلم لیگ ن کی دھڑے بندی موجود ہے اور اس میں مقامی قیادت کا اہم کردار ہے اسوقت وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی اور ایم پی اے راجہ محمدعلی کا ایک سٹیج پر ہونا انتہائی ضروری ہے اگر اختلافات اسی طرح رہے تو فائدہ دیگر امیدواروں کو ہو گا وفاقی وزیر شاہد عباسی گو کہ اپنے حلقہ میں کم ہی نظر آتے ہیں مگر دیگر ترقیاتی کاموں کے علاوہ سوئی گیس کے حوالہ سے بہت کام ہوئے جبکہ راجہ محمد علی نے گزشتہ چار سالوں میں اربوں کے ترقیاتی کام کرائے حال ہی میں ریسکوے1122کا منصوبہ ، اے سی بس سروس کا اجراء اور ساتھ کروڑ روپے کی لاگت سے بجلی کے منصوبے بھی شروع کیے جا رہے ہیں جن سے ہر یونین کونسلز کو چالیس لاکھ روپے دیے جا ئیں گے بلدیاتی نمائندوں نے محدود اختیارات کے ساتھ کام شروع کر دیا ہے مگر ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود فنڈز مل نہ سکے اس لیے وہ سراپا احتجاج ہیں ہر ماہ حلقہ پی پی ٹو کی 16یونین کونسلز کے چےئر مینوں کے مشترکہ اجلاس منعقد ہوتے ہیں جس میں وہ اختیارات اور فنڈز کیلئے سراپا احتجاج ہوتے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کی گروپ بندی نے بھی انکو مشکل میں ڈال رکھا ہے انھوں نے کئی مرتبہ اعلیٰ قیادت سے مطالبہ بھی کیا کہ مسلم لیگ ن کی دھڑے بندی ختم کرائی جائے ‘ وزیر اعظم نواز شریف نے کہوٹہ نڑھ کے مقام پر جلسہ سے عوام سے جو وعدے کیے تھے اُن پر ابھی تک عمل در آمد نہ ہو سکا مسلم لیگ ن نے ترقیاتی کام کیے ہیں مگر صحت اور تعلیم کے شعبے میں یہ علاقہ آج بھی بہت پیچھے ہے الیکشن سے قبل میاں نواز شریف 2008میں پنڈی کہوٹہ موٹر وے اور نڑھ میں اربوں کے ترقیاتی کاموں کے وعدوں پر عمل کریں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں