355

تسنیم تصدق‘شاعرہ اور افسانہ نگار

تسنیم تصدق 11ستمبر 1958ء کو سنت نگر لاہورمحمد اکرم قادری کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ جامع ہائی سکول سرگودھا سے میٹرک پاس کیا اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایف اے اور بی۔ اے کیا۔ آپ کو شاعری وراثت میں ملی ہے۔ آپ کے پردادا، دادا، پھوپھو اور تایا ابو حزیں قادری شاعر تھے جن کے بے شمار پنجابی گانے مشہور ہیں۔ تسنیم تصدق 2010ء سے لاہور کو خیر باد کہہ کر راولپنڈی میں قیام پذیر ہیں

۔ حرف اکادمی پاکستان وومن ونگ راولپنڈی کی صدر ہیں۔ اردو، پنجابی ہر دو زبانوں میں شعر کہتی ہیں۔ شاعری کے علاوہ کہانیاں، افسانے ڈرامے اور خاکے بھی لکھتی ہیں۔ آپ کی چھ کتب بھیگی پلکیں، 2015ء، یہی ہیں اوراق زندگی 2016ء، دوپٹہ 2017ء، دکھتے حرف 2019ء، سفنا و یاہ دا 2022 ء اور ذکر اللہ 2023 ء زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ تسنیم تصدق سے راولپنڈی ان کی رہائش گاہ پر شعر و ادب کے حوالے سے ایک تفصیلی گفتگو ہوئی جونذر قارئین ہے۔ جب میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی

تو بریک کے وقت جب سب بچے کھیل کود میں مصروف ہو جایا کرتے تھے تو میں کھیلنے کی بجائے لکھنے بیٹھ جاتی تھی۔ ہمارے دور میں پنک کلر کی رف کاپی ہوتی تھی اور بلیو بال پوائنٹ ہوتا تھا اس سے میں نے بڑا سا لفظ ”ماں ”لکھا۔ میں اس رشتے کو ڈھونڈتی رہتی اور میں نے ایک کہانی لکھ دی۔ تیرہ سال کی عمر میں پہلا شعر کہا جو یوں ہے:
تم تپتی ہوئی ریت پہ پہلی بارش ہو
شاید اس صحرا کی آخری خواہش ہو
اس کے بعد شعر کہنے کا سلسلہ جو جاری ہوا وہ ابھی تک جاری ہے۔ میں زیادہ تر اردو زبان میں شعر کہتی ہوں۔ میں نے اردو سے ہی شاعری کا آغاز کیا تھا اور میرے استاد بابا غضنفر علی ندیم مجھے کہتے تھے کہ پنجابی بھی لکھا کرو کیوں کہ تمہارے تایا ابو حزیں قادری پنجابی کے نامور شاعر ہیں۔ میں نے پھر ان کے کہنے کی وجہ سے پنجابی کو پڑھنا شروع کیا پھر میں نے سب سے پہلے وہ نظم لکھی جس کا عنوان چاہ ہے

جو میرے پنچابی مجموعہ کلام” دوپٹہ” میں شائع ہوئی۔ اسلام آباد میں پروفیسر سبھی یونس کے گھر میں مشاعرہ تھا جس کی صدر مشاعرہ کراچی سے آئی ہوئی محترمہ فاطمہ صاحبہ تھیں جہاں نظم چاہ میں نے پڑھی چائے کی میز پر انہوں نے کہا تسنیم پنجابی کی نظم چاہ پھر سناؤ۔ وہ کچھ دیر خاموش رہیں اور جب بولیں تو کہا تسنیم، انور مسعود مردوں کا مزاحیہ شاعر ہے اور نظم میں تم عورتوں کی شاعرہ ہو۔ انہوں نے کہا تسنیم اس نظم کو تیسری بار پھر سناؤ انہوں نے کہا اس نظم کو ریکارڈ کر کے بھیجو پھر میں نے ان کو یہ نظم ریکارڈ کر کے بھیجی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگاں میں دو پٹہ کہڑے رنگ دا سہلیو
پیلا رنگ پکھ نہیں چہراں نوں دیتا اے
نیلا رنگ ہجر دیاں سٹاں لے گئیاں نیں
سو ہارنگ روڑ پڑ گیا وے پسینے وچ
لے گئے گلابی رنگ قبراں دے پھل نی
ساواسو ہنارنگ منٹھار رنگ لوٹیا
نفرت ساڑتے
شریکے والی لونے
کالا رنگ لے گئے درداں دے ماتمی
میرے نی دو پٹے لئی رنگ کہڑا بچیا
چٹا سی دو پٹہ میر اچٹا رہ گیا اے
چاہ میرا
چاہ سی بس چاہ رہ گیا اے
لاہور میں پروفیسر عاشق راحیل کے گھر مشاعرہ تھا کینیڈا سے آئے ہوئے سکھ شاعر کی صدارت تھی اور میں مہمان خاص تھی تو جب میں نے وہاں چاہ نظم پڑھی تو انہوں نے بھی اس نظم کو ریکارڈ کیا اور انہوں نے کہا کہ آپ کی اس نظم کو ہم اپنی کتاب میں شائع کریں گے

انہوں نے کہا تھا کہ آج تک رنگوں کو کسی شاعر نے اس طرح استعمال نہیں کیا جس طرح آپ نے استعمال کیا ہے آپ نے ایک یونیک کام کیا ہے آپ کی یہ نظم ایک مثال بن کر رہے گی۔ مجھے افسانے پر بھی گولڈ میڈل ملا ہے جو میں نے پنجابی زبان میں لکھے ہیں اردو کی کتاب دکھتے حرف پر مجھے گولڈ میڈل سرٹیفکیٹ اور نقد انعام پانچ ہزار روپے ملے ہیں جو کہ میر ے لیے خوش آئند بات ہے۔ میں ایک خاکسار ہوں لیکن ادبی حلقوں نے مجھے بہت عزت سے نوازا جس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی میں ان سب ادبی تنظیموں کی شکر گزار ہوں۔ میں نے ر ا و لپنڈ ی آتے ہی رمضان المبارک کے مہینے میں اپنے گھر ایک نعتیہ مشاعرہ کی تقریب رکھی جس کی صدارت نصرت زیدی مرحوم نے کی اور مہمان خصوصی سید کرنل مقبول حسین مرحوم تھے

جو کہ حرف اکادمی کے بانی تھے۔ پہلی ملاقات میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ تسلیم تم میری تنظیم کی وومن ونگ کی صدر بن جاؤ تو میں نے ان سے کہا کہ میں اس کی اہل نہیں ہوں تو انہوں نے کہا جومیں نے دیکھنا تھا دیکھ لیا تو انہوں نے مجھے وومن ونگ تنظیم کا صدر بنا دیا۔ ایک بہت بڑا نام ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ اور بے شمار کتابوں کے خالق سید قمر ہمدانی جن کا تعلق جھنگ سے ہے وہ چلا رہے ہیں۔ دریچہ ادب کی شاخ ایک لاہور میں ہے۔ ایک جھنگ میں ہے اور ایک اسلام آباد میں ہے۔ یہ ایک بڑی تنظیم ہے جو لکھاریوں کی ان کی زندگی میں حوصلہ افزائی کرتی ہے اس تنظیم کا ادب کے حوالے سے بہت بڑا نام اور کام ہے۔

احسان اکبر اور عرش ہاشمی نے مردوں کی تنظیم بنائی ہوئی تھی جس میں صرف نعت پڑھی جاتی تھی انہوں نے سبھی یونس اور عصمت الماس سے بات کی کہ خواتین کی نعت کی بھی کوئی تنظیم ہونی چاہیے تو عورتوں کو اکٹھا کیا جائے اس بات پر پروفیسر سبھی یونس نے میرا نام تجویز کیا اور پھر شمسہ نورین کو میں نے اس میں شامل کیا۔ اس طرح ہم نے یہ خواتین کی نعت کی تنظیم بنائی جس میں حمد، نعت منقبت، نوحہ اور قصیدہ پڑھا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے تمام اراکین نے بہت ذمہ داری سے کام کیا اور کرتی رہیں گی یوں میں اس تنظیم کی جنرل سیکرٹری بنی۔ فاطمہ قمر نے مجھے فون کیا کہ اسلام آباد میں میں منزہ جاوید کے گھر آرہی ہوں تم ادھر آجاؤ، فاطمہ قمر میری بڑی اچھی دوست ہیں جو اردو نفاذ کے لئے کئی سالوں سے کام کر رہی ہیں

وہاں محمد اکبر نیازی تشریف فرما تھے اور بھی بہت ساری خواتین جمع تھیں وہاں ایک میٹنگ ہوئی اس تنظیم نے بھی مجھے جنرل سیکرٹری بنایا جس کا نام ہے اردو ہے پہچان میری اس تنظیم کی عورتوں کی صد ر منزہ جاوید ہیں اور مردوں کی تنظیم کے صدر محمد اکبر نیازی ہیں۔ لاہور کی ادبی فضا بہت خوبصورت ہے اور مددگار ہے۔ وہ نئے لکھنے والوں کو کھلے دل سے جگہ دیتے ہیں بلکہ رہنمائی کرتے ہیں جو کہ ایک خوبصورت بات ہے۔ اپنا قیمتی وقت نئے لوگوں کو دیتے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پنجابی لکھنے والوں کو تو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ پنجابی شاعری جتنی بھی کمال کی ہو تو داد بھی نہیں دیتے خاموشی اختیار کرتے ہیں

جو میں نے محسوس کیا اور ایک ایک شعر پہ نقطہ چینی بحروں کی لڑائی ان سب باتوں میں ایک تکلیف دہ بات میرے سامنے آئی خواتین ہوں یا مردان کے درمیان بحث بہت ہوتی ہے کہ یہ کس بحر میں لکھا گیا ہے۔ علم عروض پہ جو بحث چلتی ہے تو وہ ذاتی بحث بن جاتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ علامہ اقبال جیسی شخصیت آج زندہ ہوتی تو میں ان سے سوال کرتی کہ بحریں کتنی ہیں۔ کوئی کہتا ہے سات سر ہیں اور سات بحریں ہیں باقی لوگوں نے خود بنائی ہوئی ہیں کوئی کہتا ہے ستائیس بحریں ہیں کوئی کہتا ہیایک سو پچاس بحریں ہیں۔ میں تمام لکھنے والوں سے پوچھتی ہوں کہ اگر ایک سو پچاس بحریں ہیں تو کوئی بھی شاعر شعر کہتا ہے تو ایک سو پچاس بحروں میں کسی ایک پہ تو پورا اترتا ہوگا کیوں کہ شاعر پیدائشی ہوتے ہیں

یہ بنائے نہیں جاتے اور جو شاعر بنائے جاتے ہیں وہی اس طرح کے نقطے اٹھاتے ہیں میرا ایک شعر ہے:۔
میں بول رہی ہوں کہ کوئی بولتا نہیں ہے
جس نقطے پر گراہ ہو کوئی کھولتا نہیں ہے
راولپنڈی اور اسلام آباد کی ادبی فضا ان چکروں میں پھنسی ہوئی ہے کہ نئے آنے والوں کوسراہنا ہی نہیں ہے جب کہ بہت کمال کے لکھنے والے پیدا ہور ہے ہیں۔ میری زندگی میں کوئی تکلیف دہ بات نہیں ہے میرا ادبی سفر لاہور سے شروع ہوا اور میری بہت سارے لوگوں نے مدد کی قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی۔

میرے ہم عصر جو لوگ تھے تمام کے تمام میرے ابا و اجداد محسوس ہوتے ہیں۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے بہت بڑے بڑے نامور لوگوں کے درمیان اٹھنے بیٹھنے کا موقعہ ملا جس میں علامہ اقبال کے بیٹے جاوید قبال سے بھی ملاقات کا موقعہ ملا۔ ایک شخص جو مجھے یاد ہیجو ادب کا بہت بڑا نام ہے جنہوں نے جب بھی لکھا کر بلا کے حوالے سے لکھا ان سے میں اپنی ملاقات کبھی نہیں بول سکتی ان کا نام وحید اللہ ہاشمی ہے ان کے بیٹے سے بھی میری ملاقات رہی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں