288

رفعت وحید‘ نامور شاعرہ

شاعری میں غزل اپنی خوبصورتی اور درد دل کشی کی وجہ سے بہت مقبول ہے نوجوان نسل کارجحان بھی غزل کی طرف کچھ زیادہ ہے رفت وحید کا شمار بھی راولپنڈی کی انہی شاعرات میں ہوتا ہے رفعت وحید نے غزل کو ہی ذریعہ اظہار بنایا اردو اور پنجابی ہر دو زبانوں میں خوبصورت غزل تخلیق کرتی ہیں ان کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ’سمندر استعارہ ہے‘(اردوشاعری)’اکھراں پیڑاں بوئیاں‘(پنجابی شاعری) ’سولی ٹنگیا سورج‘ (پنجابی شاعری) اب رفعت وحید سے سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔

سوال۔آپ کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟ میری تاریخ پیدائش 4 اپریل 1982ء (راولپنڈی) ہے میں نے ایم اے اردو (لسانیات) کر رکھا ہے میری تین بہنیں اور دو بھائی ہیں۔میں ایک گھریلو عورت ہوں۔ مجھے غزل کہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔کب سے شاعری کر رہی ہیں؟ کہ جواب میں بتایا کہ میں نے ساتویں جماعت سے شعر کہنا شروع کیا اور باقاعدہ طور پر مشاعروں میں شرکت 2004ء سے کی۔ شعر کہنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ وہ خواتین جو ادب سے تعلق رکھتی ہیں وہ ادب کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں ناول نگاری میں جو مقام عورت کا ہے وہ مرد کا نہیں۔ افسانہ نگاری اور شاعری میں بھی خواتین کا بہت کام ہے۔

شاعر آدمی قوم پر آنے والی مصیبت کو پہلے محسوس کرتا ہے جب کہ غیر شاعر کے لیے یہ کام مشکل ہے۔ ہر وہ کام آسان ہے جس میں محنت کی جائے جسے شاعری پر عبور ہے اس کے لیے شاعری آسان ہے نثر نگار کے لیے نثر لکھنا آسان ہے۔ آپ کو علم ہے کہ ایک بیٹا جو داغ مفارقت دے گیا روز یاد آتا ہے۔ اردو ادب بارے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا اردو ادب کے مسائل سے زیادہ شاید ہمیں اس بات پہ غور کرنا چاہیے کہ ہماری زبان اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ کسی بھی زبان کے ادب کی ترویج تبھی ممکن ہوتی ہے جب وہ لسانی اعتبار سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زبان اور ادب ترقی کریں تو سب سے پہلے زبان کو اہمیت دینا ہو گی جب کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ہمارے اردو کے ادیب بھی جنہیں اگر چند جملے یا الفاظ انگریزی کے آتے ہوں تو وہ کوڈ-مکسنگ اور کوڈ-سوئچنگ کر کے اپنی گفتگو میں لازمی گھسیڑتے ہیں انہیں ہماری آنے والی نسلیں انگریزی زبان میں فخر اور اردو بولنے میں کمتری محسوس کرتی ہیں

تو پھر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان و ادب ترقی کریں گے۔ دونوں ممالک کو سب سے پہلے اردو کو بطور زبان اہمیت دینی چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو شاید سو سال بعد ورڈ بوروئنگ کے نتیجے میں ہماری زبان کا چہرہ تک مسخ ہو جائے گا اور شاید 500 سال بعد اس زبان کی ہئیت ہی بدل چکی ہوگی۔ اردو بولنے میں یا لکھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے زبان کی بقا اسی میں ہے۔ ایک تخلیق کار صرف وہ چیز تخلیق کرتا ہے جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ اردو کی بطور زبان اتنی بے قدری کی گئی کہ آج کی نسل نو کے لیے ادیب فقط مسخرے بن چکے ہیں جو انہیں چند لمحوں کے لیے محضوض کرتے ہیں۔ وہ بچہ جو اردو بولنا اپنی توہین سمجھتا ہے وہ حقیقی ادب کو کیا سمجھ سکتا ہے؟ اس نے ڈیمانڈ اس کی کرنی ہے جو اسے لطف دے نہ کہ عکاسی کرے۔ اسے لطیفہ سنایا جائے یا شعر اس کے لیے برابر ہے۔ اور اس نے گھٹیا سے لفظوں کے گٹھ جوڑ کی ڈیمانڈکرنی ہے تو تخلیق کار نے وہی تخلیق کرنا ہے۔ صرف تخلیق کاروں کو نہیں بلکہ ہم سب کو سوچنا چاہیے

کہ یہ ایک زبان ہے اس کا اپنا ایک وجود ہے اور اسے بولنا کوئی کم پڑھے لکھے ہونے کی دلیل نہیں۔ سرکاری سطح پر بھی نصاب ہماری قومی زبان میں لکھا جانا چاہیے تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ اس زبان کا اپنا ایک وجود ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بدقسمتی سے ہمیں پھر لسانی سائینس کی بات مان کر یہ زہر اپنے اندر انڈیلنا ہو گا کہ زبان کسی بھی شکل میں ہو کوئی بھی ہو صرف پیغام رسانی کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ زبان ہماری تہذیب کی عکاس بنے تو اس کے لیے وینٹیلیٹر پر پڑی اس زبان کو زندگی دینی ہو گی۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ان گنت تنظیمیں وجود میں آ چکی ہیں جن میں کچھ تو خالصتاً ادبی سرگرمیوں کی فضا قائم کیے ہوئے ہیں

اور شعر و سخن کی خدمت کر رہی ہیں جبکہ بہت سی تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو’انجمن ستائش باہمی‘ کی ذیل میں آتی ہیں۔شاعری کا فروغ درحقیقت شاعری کا ذاتی عمل ہوتا ہے جتنا اچھا شعر کوئی کہہ رہا ہے اس کو اتنی ہی داد مل رہی ہے اتنی ہی زیادہ ستائش ہو رہی ہے میرے خیال میں اچھا شعر کہنا ہی شاعری کی ترویج کا باعث بنتا ہے۔نئے لکھنے والوں کے لیے میرا پیغام یہی ہے کہ اگر آپ شاعری کرتے ہیں تو اسے محض شوق نہ سمجھیں اسے ایک جذبے، لگن، محبت اور محنت کے ساتھ نبھائیں شاعری بہترین دوست، بہترین ہمراز ہے شاعری آپ کو تنہا نہیں ہونے دیتی آپ شاعری کے ساتھ جینا سکھیں یقیناً یہ آپ کو جینا اور زندگی کو سمجھنا سکھا دے گی۔
قارئین کے لئے کچھ کچھ شعر پیش خدمت ہیں:
بنے گا کیا اب اس کا فیصلہ تو چاک پر ہوگا
خیال ایک جسم کا ہاتھوں میں گارا بن کے اترا ہے
پل بھر میں سمندر تو بناتی ہوں رفعت
کیوں مجھ سے سمندر کا کنارہ نہیں بنتا
غلط تھے مشورے سارے جو بھائی دیتا رہا
وہ سانپ تھا مجھے سیڑھی دکھائی دیتا رہا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں