212

نوجوان شاعر ادیب محمد اخلاق

اردو اور پوٹھوہاری زبان کے خوبصورت لہجے کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر ادیب جناب محمد اخلاق ولد فضل داد کا تعلق دولتالہ سے ہے

جبکہ انھوں نے 28اگست1981 کو محنت کش اور زرخیر علاقہ دولتالہ میں آنکھ کھولی پیار محبت اورانسانیت کا درس اپنی پہلی درسگاہ واالدہ ماجدہ کی گود سے سیکھا ان کو اعلی تعلیم حاصل کرنے جنون کی حد تک شوق تھا لیکن معاشی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ایف اے تک ہی تعلیم حاصل کر سکے اچھی اور معیاری علمی ادبی کتابیں پڑھنے اور کچھ نہ کچھ لکھنے کا شوق تو بہت تھا اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کی وجہ ایسے الجھے

کہ کربناک حالات کے تپتے صحرا نے کچھ لکھنے کی مہلت نہ دی تھوڑی آسودگی ہوئی تو انھوں نے لکھنے کا باقاعدہ آغاز 2021 سے کیا اپنے خیالات جذبات اور محسوسات کا ذریعہ اظہار اردو اور پوٹھوہاری زبان کو بنایا اور پھر ان کا نعت اور غزل لکھنے کی طرف میلان بھی زیادہ رہاان کی طبیعت میں نفاست اور خیالات میں پاکیزگی اپنی سبز شاخیں پھیلائی ہوئی ہے ان سبزشاخوں پہ کھلنے والے پھول اور لگنے والے پھل بھی تخلیق کی صورت میں اپنی مثال آپ ہیں اس سے بڑھ کر ان کی گفتگو میں سادگی محبت کی خو شبو اور اپنائیت کی مہک چار سو بکھرتی نظر آتی ہے یہ خوشبو اپنے تو اپنے جانی دشمن کو بھی اپنا اسیر بنا لیتی ہے

ان خوبیوں اور خصوصیات کی وجہ سے ان کی تخلیقات میں زیادہ اشعار ایک خاص کیفیت میں پڑھنے کو ملتے ہیں
ان کی اردو نعت کے چند اشعار دیکھیے
سرِ عرش جائیں کہ پھرلوٹ آئیں
انھی کے لیے تو زمین و زمن ہے
سبھی انبیاء ہیں حسیں بن کے آے
یہاں حُسن کی انتہا ہو گئی ہے
آیاتِ قل سے عقدہ کُھلا یہ جہان پر
اللہ کے کلام کی گُفتار آپ ہیں
اردو کی طرح یہ اپنی پوٹھوہاری زبان میں بھی


کمال کی نعت کہتے ہیں ان کے دل و دماغ میں سرکار سے عشق اپنی انتہا تک پہنچا دکھائی دیتا ہے ایسے انداز اور اسلوب سے محبت عقیدت کا اظہار کرتے ہیں

سن اور پڑھ کر دل باغ باغ ہو
جاتا ہے ان کی نعتوں سے منتخب اشعار پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں
بہوں سوہنڑیں نے لجپال،انہاں جیا کُرے وی نینہ
کیوں لوڑاں ہور مثال،انہاں جیا کُرے وی نینہ
کیہڑی کیہڑی صِفت میں دساں آقا نی
بَٹیاں کولوں کلمے آپ پڑھائے نے
ان کی منقبت امام حسین اور ان کے ساتھؤں کی عظیم شہادت کو سلام پیش کر رہی ہے کہ حق کی خاطر ایسی قربانیاں دینا بہت مشکل اور تکلیف دہ ہے ایسی قربانیاں دینے والے ہی جنت کے وارث بن سکتے ہیں شعر دیکھیں
کوثر‘جنت نا وارث ہو کے اخلاق
ہتھیں چا کے بال کُہانڑا اوکھا اے

غزل ہمارے ادب کے ماتھے کا جھومر رہی ہے باقی اصناف چاہے کتنا ہی انفرادی مرتبہ حاصل کر لیں لیکن غزل اپنے ماضی کہ طرح اپنے مقام پر قائم دائم ہے اور لکھنے والے اور اس کے قاری آج بھی زیادہ ہیں اکثریت نوجوان اپنی شاعری کی ابتدا اس پیاری اور قدیم صنف سے کرتے ہیں اخلاق کا رجحان بھی نعت کے ساتھ غزل کا بھی ہے یہ اس کی روایت جدت سے اچھی طرح آشنا ہیں ان کی شاعری میں غم جاناں کے ساتھ غم دنیا بھی ہے
ان کی اردو غزلیات سے چند اشعار ملاحظہ کریں
ختم تیرا بھی کھیل بادِ صبا
زُلف کو اس نے زیرِ شال کیا
تجھ کو چاہت ہے روشنی کی اگر
اپنے ہاتھوں سے خود جلا مجھ کو
ہو گیا جو راز افشاء بزم میں
تجھ پہ ہی سب تانا بانا آے گا
دولت بچا نہ پائے گی تجھ کو امیرِ شہر
ٹوٹا اگر جو تُجھ پے یہ آہوں کا آسماں
معذرت اُس نے کر تو لی لیکن
عمر بیتی ہے گھاو بھرنے تک
رکھا ہے اپنے آپ کو دنیا سے یوں نہاں
دنیا ہمارے حال کا چرچا نہ کر سکی
بہت ڈرتا تھا فُرقت سے مِرا دل
وہی تحفے میں پھر سونپی گئی ہے
تُم پہ گزرے تو اِک قیامت ہو
ہم پہ گزرے تو اِک تماشہ ہے
میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ یہ روایت سے جڑ کر جدت کی طرف سفر کر رہے ہیں جو اک کامیاب شاعر بننے کے لیے لازمی ہے ان کی شاعری میں محبوب کی بے

وفائی اس کے ستم اس کی بے رخی کے ساتھ معاشرے کی طرف سے مسلسل زیادتیوں نا انصافیوں لا پروائیوں انتہا کی زیادتیوں مفلسی میں جنم لیتے ان سوچے دکھ جیسے مضامین شامل ہیں یعنی آج کا نوجوان ذاتی اور معاشرتی مسائل سے بے خبر نہیں ہیں ان تمام مسائل کے چبھتے اور زخمی کرتے اثرات ان کی شاعری کے خاص موضوع ہیں جس طرح یہ اردو غزل کا اچھی شاعری سے دامن بھر رہے ہیں اسی طرح پوٹھوہاری غزل کا دامن بھی اچھی اور معیاری غزلیات سے بھر رہے ہیں

پھر یہ بات بھی قابل تعریف ہے کہ یہ پوٹھوہاری زبان میں کمال کی غزل کہہ رہے ہیں اپنی مادری زبان میں شاعری کا اپنا ہی لطف ہے جو اس زبان سے واقف ہیں وہ اس سے بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ لطف بھی لیتے ہیں ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری اپنے خطہ کے کلچر تہذیب اور نظریات سے بھر پورہوتی ہے ایسی تخلیق ادب عالیہ کہلاتی ہے عالمی ادبی دنیا کے شاعر ادیب اور نقاد نہ صرف پسند کرتے ہیں

بلکہ ایسے زرخیر علاقائی ادب کو ترجیح بھی دیتے ہیں اور رائٹر کو خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں اور عالمی ادب کے رائٹر اور نقاد ایسے ادب کی کافی پذیرائی بھی کرتے ہیں پھر اس کی اہمیت افادیت بھی سب سے الگ ہوتی ہے یہ تمام خوبیاں اخلاق کی شاعری میں بدرجہ اتم وجود ہیں اس وقت پوٹھوہاری ادب باقی زبانوں میں تخلیق ہونے والا ادب سے دوسری زبان کے ادب سے کم معیاری نہیں ہے امید کرتا ہوں

میری طرح آپ بھی پوٹھوہاری زبان کے ساتھ اشعار ان کے اسلوب مشاہدات اور مصرع کی کرافٹنگ پر خراج تحسین پیش کریں گے ذرا یہ اشعار دیکھ لیں
جس ویلے وی تہوخا ملیا
پہلے کولُوں چوخا ملیا
پیراں تھلے جس نے جنت
اوہ پیراں وچ رُلنی پئی اے
ماڑے ویلے اوہ وی ہتھ چھڑا گشنے
جیہڑے ہتھیں چا کے پالے ہونڑے نیں
طعنے دینڑیں سی مہاڑے ساکاں نے
پہیڑی دنیا سُوں چھپ کے بیٹھا واں
خورے دنیا کڈسی کہہ
پانڑیں رِڑ کنڑ لغ پئی اے
یہ خوش آئند بات ہے

کہ نوجوان شعرا ادب کی مقبول صنف غزل سے پیار کرتے ہیں اور اشعار کو نئے ا نداز نئی کرافٹنگ سے کہنے کی سعی کرتے ہیں اس سعی کرنے والوں میں محمد اخلاق صاحب بھی قدم بڑھا رہے ہیں اردو کے ساتھ اپنی پوٹھوہاری زبان کو بھی فروغ دے رہے ہیں ایسے مخلص لکھاری سلام اور محبت کے قابل ہوتے ہیں ان کو اس کا صلہ ملنا چاہیے آپ اپنی محنت اور سنجیدہ ادبی کام سے آہستہ آہستہ ادبی دنیا میں انفرادی اور دائمی مقام بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں

آپ اپنی شاعری پر پر مشاورت سینیر شاعر ادیب جناب اکرام رشیدقریشی سے لیتے ہیں ان کی باقی ادبی دوستوں کی تخلیق پر مثبت اصلاح کو خوش دلی سے قبول بھی کرتے ہیں اگر تنظیمی حوالے سے بات کریں تو ادبی تنظیم حلقہ یارانِ ادب دولتالہ کے سرگرم رکن ہیں اس کے زیر اہتمام مشاعروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اس کے پوٹھوہاری ادب کے فروغ میں سرگرم تنظیم اور اس تنظیم دبستانِ پوٹھوہار واٹس ایپ کا متحرک گروپ میں کئی ادبی پروگراموں کی نظامت بھی کرتے رہے ہیں

آپ کی شاعری کے ساتھ آپ کی نظامت بھی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے آپ کی نظامت سامع پر سحر طاری کر دیتا ہے آپ کی چند نعتیں ”گوجر خان رنگ“ میں بھی شائع ہو چکی ہیں ان کی ادب سے دلچسپی روایت اور جدت کا مطالعہ پھر مسلسل مشقِ سخن اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ کا یہ مثبت قدم آپ کے ارادوں کو تقویت پہنچائے گا آپ پوٹھوہاری غزل کے ساتھ اردو غزل میں اپنی جلد انفرادی پہچان بنالیں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں