232

نغمہ ُُاے دنیا کے منصفو ٗٗکے خالق جاوید احمد چل بسے

علی الصبح جب میری آنکھ کھلی حسبِ معمول میں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک اور واٹس ایپ گروپس میں گردش کرتا ہوا ایک میسج پڑھنے کے بعد مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا کہ تحصیل کہوٹہ بلکہ راولپنڈی پنجاب یہاں تک کہ پاکستان اور عالمی سطح پر مظلوموں کے لیے اور بالخصوص پوری دنیا میں کشمیر پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پر عالمی دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والے ”اے دنیا کے منصفو سلامتی کے ضامنو کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے خون کا شور سنو“نغمہ لکھنے والے مشہور شاعر جاوید احمد صاحب اس دار فانی سے کوچ کر گئے مرحوم انتہائی ملنسار طنز و مزاح کے لہجے سے بھرپور ایک زندہ دل شخصیت کے حامل انسان تھے

آپ نے نہ صرف تحصیل کہوٹہ میں علم و ادب کی محفلوں کی شمع جلائی بلکہ نوجوانوں کو ادب کی طرف راغب کیا آپ علالت سے پہلے ہر شام اپنے چند دوستوں کے ہمراہ جن میں پوٹھوہار کے مشہور تاریخ دان پروفیسر حبیب گوہر صاحب و دیگر علمی و ادبی شخصیات کے گرد ستاروں میں چاند کی ماند محافل سجاتے خطہ پوٹھوہار میں عرصہ چالیس سال سے شاید ہی کوئی محفل مشاعرہ ہو جس میں جاوید احمد صاحب کو بطورِ میزبان نہ بلایا گیا ہو

آپ نے مظلوم کشمیریوں کے حق میں ترانہ لکھ کر عالمی شہرت پائی


صدارتی ایوارڈ یافتہ جاوید احمد بہت سی کتابوں کے خالق تھے جن میں مشہور کتاب مٹی کا شجر، اک پردہ سخن سے آگے ہے عوام میں بے حد مقبول ہوئیں ادبی خدمات تو ایک طرف آپ نے سیاسی میدان میں بھی بہت کام کیا

آپ اپنے آبائی حلقہ یونین کونسل پنجاڑ سے ناظم منتخب ہوئے اور ق لیگ میں شامل ہوکر اپنے علاقے میں تقریباً کروڑوں روپے کے کام کروائے اس کے بعد آپ تحریک انصاف کے قافلہ میں شامل ہوگے آپ پاکستان تحریک انصاف کے تحصیل صدر بھی رہے مگر قیادت کی جانب سے مسلسل نظرانداز کیے جانے پر دلبرداشتہ ہو کر بلاآخر 2024 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن میں شامل ہوتے ہوئے مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار راجہ اسامہ اشفاق کی حمایت کا اعلان کر دیا مختصر یہ کہ سیاست ہو کہ ادب ریڈیو پاکستان ہو یا مٹور چوک کا چوراہا جاوید احمد کی شخصیت اپنے آپ میں ہی ایک الگ مقام رکھتی تھی گزشتہ روز ان کی نمازِ جنازہ ثوبیہ سکول گریڈ اسٹیشن میں ادا کی گئی تو تمام سیاسی و سماجی شخصیات سمیت سینکڑوں افراد نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور آہوں سسکیوں کے ساتھ جاوید احمد کو سپرد خاک کر دیا گیا اور اک عہد تمام ہوا اور علم و ادب سے محبت رکھنے والے افراد کو یتیم کر گیا اور بقول جاوید احمد
چند شاعر ہیں جو اس شہر میں مل بیٹھتے ہیں
ورنہ لوگوں میں وہ نفرت ہے کہ دل بیٹھتے ہیں
یقیناً ان کے بعد بھی ان کے شاگرد دوست احباب اور رفقاء ان کے مشن کو جاری و ساری رکھیں گے یقیناً جاوید احمد کا نام تحصیل کہوٹہ کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے قومی اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں