223

قمر محمو دعبداللہ کا ناول مٹی نی خشبو

قمر محمود عبداللہ پوٹھوہاری زبان و اد ب میں انفرادیت کے ساتھ معتبر حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کی صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب پوٹھوہاری سیرت (خلقت نے سردار) اور ”پوٹھوہار میں فن شعر خوانی” اور اُردو ناول دہشت گرد۔؟ نے ادبی دنیا میں بہت پذیرائی حاصل کی۔ خطہ ء پوٹھوہار کے علاوہ پنجاب کی کافی ادبی تنظیموں نے ان کی کتب پر کئی ایوارڈز جاری کیے۔ کے ٹو ٹی وی چینل اور ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے پوٹھوہاری پروگراموں میں ان کے ساتھ کئی خاص نشستیں کی گئیں۔ ان کا اب پوٹھوہاری زبان میں ”مٹی نی خوشبو” جیسا اہم ناول پوٹھوہار کے علاوہ پنجاب کے ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ یہ ناول اپنے عنوان اور متن سے پوٹھوہار نہیں بلکہ پورے پاکستان کے معاشرے کی نمائندگی کر رہا ہے اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے قیام سے معاشی مسائل کے ساتھ معاشرے میں قتل و غارت اور بے چینی سے جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس موضوع پر پوٹھوہاری زبان میں ناول شائع ہونا پوٹھوہاری زبان کی اہمیت اور شہرت کا باعث بنے گا۔ ناول عمومی طور پر ایک کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے مذہبی، سیاسی، نظریاتی، معاشرتی رویوں اور ثقافت و تہذیب کی ترجمانی بھی کر رہا ہے۔اس ناول کو پانچ جہتوں سے زیرِ باعث لایا جا سکتا ہے۔


1: پوٹھوہاری زبان اورمتروک الفاظ کا استعمال
ناول نگار نے پوٹھوہاری زبان کے متروک الفاظ کا بھی عمدہ استعمال کیا ہے جیسے،پھالی، میڑا، منجھیاس، جونٹھ پاڑے، تراٹ اترے، چھناں گلنی، رکابیاں کول نالی ٹہھکی، بانگ،پہارو، پھال کھرپہ ڈوگے، ساوے کچوک کسیاں بنھے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ الفاظ ہمارے پوٹھوہار کی عکاسی کرتے ہیں اور ایسے الفاظ جن سے نئی نسل واقف نہیں ہے۔ اس کے بعد خالص پوٹھوہاری زبان کے محاوروں، روزمرہ ضرب الامثال کا عمدگی اور نفاست سے استعمال بھی اس کی خوبی میں شامل ہے۔ یہ بات بھی قابلِ تحسین ہے کہ اس میں پوٹھوہار کی مرکزی زبان کا چناؤ کیا گیا ہے جس کو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والے اکثریت میں ہیں۔ علم و ادب اور زبانوں کے فروغ کے لیے کام کر نے والے سرکاری ادارے اس مرکزی زبان کو مانتے بھی ہیں۔ یہ بات پڑھنے سے بھی معلوم ہوتی ہے اور ایسے الفاظ رہتل کی مکمل عکاسی کر تے ہیں۔


2: تہذیب و ثقافت
ناول میں پوٹھوہار کے کلچر،رسم و رواج اور روایات کوخاص طور پر زیر بحث لایا گیا ہے۔ ہمارے بزرگانِ دین کے سالانہ عرسوں کی تقریبات، شادی بیاہ کی رسومات،فوتگی کے دوران محلے داروں کا طرزِ اخلاق، گندم اور دوسری فصلوں کی کٹائی کے وقت آپس میں اتفاق اور خوشی کو منانے کے مختلف انداز، پوٹھوہار میں مختلف موسموں میں کھیلے جانے والے پچوں کے خوبصورت اور اتحاد و اتفاق کا درس دینے والے کھیلوں کو اس ناول کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ قاری اور نقاد اس گوشے سے آشنا ہو سکیں کہ پوٹھوہار زبان کے ساتھ اپنے کلچر سے کس قدر زرخیر تھا اور ہے۔


3: ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے منفی اثرات
اس ناول کا پلاٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے وجود اور ہمارے معاشرے پر ان کے منفی اثرات کو بیان کرتا ہے۔ پوری کہانی اسی موضوع کے گرد گھومتی ہے۔ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے قیام سے کئی لوگ بہت امیر ہو گئے ہیں اور کئی متاثرین غربت کے آخری درجے پر پہنچ گئے ہیں۔ ذریعہ ء معاش کے کچھ در وا تو ہوئے اور چالاک، تیز مزاج لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، باقی یا تو صبر کے دامن تھام لیتے ہیں اور جو سر اٹھاتے ہیں، ان کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ یہی ہاؤسنگ سوسائٹیوں والے اتنے دولت مند ہو جاتے ہیں کہ غیر ملکی ان سے رابطے میں آ جاتے ہیں پھر وہ ان سے غیر قانونی ایجنڈے پر کام کرانا شروع کر دیتے ہیں، جو ملک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں اور جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ سکندرجیسے کردار ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی پیداوار ہیں جو ناول کا دوسرا اور اہم کردار ہے۔ یہ کردار اپنے حالات بہتر کرنے اور زیادتیوں کا بدلہ لینے کے لیے شہنشاہ گینگ میں شامل ہو گیا اور ایم پی کا قتل بھی کر دیا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ پراپرٹی ڈیلر بننے کا شوق نوجوان نسل کو راہ روی کے رستے پر لے جاتا ہے اورنوجوان خطرناک گینگ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں منفی سرگرمیاں فروغ پانے لگتی ہیں۔ سکندر اور ان کی سرگرمیاں دیکھ کر ملک دشمن عناصر شہنشاہ گروپ کے ساتھ مل کر ملک کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ یہی ہاؤسنگ سوسائٹیوں والے ان کے سہولت کار بن جاتے ہیں۔ جیسے اس ناول میں ہوتا ہے۔ سکندر ایک پولیس مین تھا۔ تمام باتوں کے باوجود ملک سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ایک دوسرے کردار کامران کوبھی یہی ادھر لایا تھا۔ سب اس کو ہیرو کہتے تھے مگر سکندر کامی کو بتا چکا تھا کہ غیر ملکی مفاد میں کام کرنے والے شہنشاہ گروپ کو ان کے انجام تک پہنچائے گا۔ شہنشاہ گروپ پیسے کے لالچ میں ملک میں افراتفری، اور اہم شخصیات کا قتل ان کا منشور بن گیا اور وہ ملک میں افراتفری پھیلانے کا معاوضہ لیتے تھے۔ ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے بگاڑ زیادہ اور نفع کم ہوا ہے۔ ہمارے خوبصورت اور نمائندہ کلچر کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے ختم کر دیا ہے اور جدید کلچر متعارف کروا دیا ہے جو منفی روایت کو جنم دے رہا ہے۔ ناول ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے پس پردہ اثرات کو عیاں کرتا نظر آتا ہے۔ یہ کام پورے ملک میں ہو رہا ہے جو ہمیں بھوک اور قحط کی طرف دھکیل رہا ہے۔


4: شعر خوانی اور شاعری کا خوبصورت استعمال
یہ ناول تاریخی زمرے میں داخل ہوتا محسوس ہوتا ہے اور ناول نگار پوٹھوہار کے معروف شعر خوانوں کا تذکرہ شروع کر دیتے ہیں۔ چومصرع کے معروف شاعروں اور شعر خوانوں کے پروگرام اور تعارف سپردِ قرطاس کرنے لگ جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کردار کامی کو چومصرع کا شیدائی ظاہر کر دیا اور گاہے گاہے کامی سائیں احمد ایرانی اور سیف الملوک کے اشعار سنانا شروع کر دیتا ہے جو محفل کی رونق دو بالا کرنے کے مترادف ہے۔ یہ میں تخلیق کار کی خوبی تصور کرتا ہوں۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کامی کا کردار پوٹھوہار میں سے ہے اور اس کے اندر پوٹھوہار کا کلچر اور تہذیب رچے بسے ہیں۔ یہ خوبی کامی کے کردار کو نمایاں کرتی ہے اور اس کردار سے محبت اور دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔


5: کامران کامی کا مثبت کردار
ناول کا اہم اور نمایاں کردار کامران کامی کا ہے۔ کامی کو استاد خضر نے بڑا دھچکا دیا کہ اس کو سکول سے نفرت پیدا کر دی۔ اس سے اس کا مزاج کرخت ہو گیا۔ تھتھا تھتھا کی آواز نے اس کو چھوٹی عمر میں عملی زندگی میں قدم رکھوا دیا۔ پڑھائی چھوڑنے کے بعد اپنے والد کا کھیتی باڑی میں ساتھ دینا مثبت پہلو ہے مگر تعلیم سے محرومی انسان کو جہالت کے پردے میں قید کر دیتی ہے۔ اس کے والدین کی جدائی اس کی خوشیوں کا گلا گھوٹ دیتی ہے، پھر بیرون ملک میں جیل کاٹنا، واپسی کے بعد بھائی کا جائیداد سے محروم کر دینا، پھر شادی جیسے معتبر بندھن سے محرومی جیسے پہلو شخصیت پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔اس پر مستزاد بڑا ظلم اپنے گاؤں کی جگہ سوسائٹی کا قیام ایک حساس اور مخلص شخص کو پاش پاش کر دیتا ہے۔ کامی کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ اس کا بھائی زمین سوسائٹی میں لٹآ بیٹھا اور پورے علاقے کا کلچر تبدیل دیکھ کر اور اپنوں کا منافقانہ رویہ دیکھ کر کامی نے سکندر کے کہنے پر شہنشاہ گروپ کو جوائن کر لیا اور ان کے اشارے پر ناچنے لگا مگر ناچنے کے باوجود اس نے اپنے مشن کو سامنے سے نہ ہٹایا۔ شہنشاہ گروپ کے غیر ملکی مفاد کے ایجنڈے کا معلوم ہونے کے بعد ان کے بہت قریب ہو گیا اور آخر میں اس گروپ کو سکندر کے ساتھ مل کر پکڑوا دیا۔ سکیورٹی تک اطلاع سکندر نے پہنچائی اور خود امیر ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح کے لیے خود کو وقف کر دیا۔


یہ ناول بڑے اہم موضوع پر ہے۔ اس کو ناول نگار نے بڑی خوبصورتی سے ترتیب دیا ہے۔ اس کے اندر زبان بہت خوبصورت اور روانی کمال کی ہے۔ یہ ایک المیے کو بیان کر رہا ہے اور ہمیں آنے والی تباہی سے آگاہی دے رہا ہے۔ اس کے کردار ہمارے معاشرے کے اندر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ناول پورے پاکستان میں اس طرح کے مسائل کو اجاگر کر رہا ہے اور ملک میں نفسا نفسی، قتل و غارت، دلوں میں کدورتیں،رشتے داروں میں دوریاں، بھائی بھائی کو قتل کرنیکے لیے تیار، ہر گھر میں فساد اور نوجوانوں میں آوارہ پن کی وجوہات کی بھی ناول نشاندہی کرتا ہے۔ اس ناول کو پوٹھوہار تک محدود کرنا ناول اور رائٹر کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ پوٹھوہاری زبان کے ساتھ ساتھ ناول نگار کی شہرت کا باعث بنے گا۔ سکندر اور کامی امیر تو بن گئے مگر ان کے خمیر اور روح میں اپنی مٹی کی خوشبو ہمیشہ کے لیے رچ بس گئی۔ یہ ناول مٹی کی خوشبو اپنے انفرادی اور خوبصورت پلاٹ کی وجہ سے کافی شہرت حاصل کرے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں