221

تھانہ کہوٹہ میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال

تھانہ کہوٹہ کی حدود یقینی طور پہ پوری تحصیل کہوٹہ جتنی ہے۔ تھانہ کہوٹہ کا ذکر ہمیشہ سے پرنٹ میڈیا پہ آتا رہتا ہے لیکن پچھلے کچھ سالوں سے جرائم خاص کر ڈکیتیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ماضی دور میں جانے کی بجائے سال 2024ء کا ذکر کرتے ہیں

۔ جنوری 2024 میں ڈی ایس پی کہوٹہ کلر مرزا طاہر سکندر جو اس سے قبل بھی بطور ڈی ایس پی تھانہ کہوٹہ میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں، دوبارہ چارج سنبھالا۔ اس وقت ایس ایچ او بشارت عباسی تھے جو ایک ہی ماہ بعد فروری2024 میں تبدیل ہوئے اور موجودہ ایس ایچ او عزیز اسلم نیازی نے سٹیشن ہیڈ آفیسر کا انچارج سنبھالا۔ عوامی حلقوں میں اسلم نیازی اچھی شہرت رکھتے ہیں۔راقم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے

تھانہ کہوٹہ کی حدود میں منشیات اور اسلحہ کلچر ہی دیکھا ہے جو اب بھی موجود ہے۔ اگر کوئی شخص اسکا انکار کرتا ہے اسکی عقل پہ ماتم کرنا چاہئیے اور معاشرے کے دشمن کے طور پہ اسکو جاننا چاہئیے۔

یہ دو ناسور پہلے ہی معاشرے کو کھوکھلا کررہے اور نوجوان نسل کو بے راہ روی پہ ڈال رہے ہیں۔ بات اگر یہاں ختم ہوجاتی ہے تو پھر بھی معاشرے میں امن و امان قائم رکھنا کسی قدر ممکن تھا لیکن پچھلے کچھ سالوں سے بالخصوص کہوٹہ شہر میں کرائم اور بالخصوص ڈکیتی کا گراف بڑھا ہے۔لاتعداد ایسے چھوٹے موٹے جرائم ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں تاہم سوشل میڈیا کیوجہ سے عوام تک پہچ جاتے ہیں

۔ بہرحال بات منشیات اور اسلحے کی چلی تھی۔ یہ حقیقت کسی سی ڈھکی چھپی نہیں کہ پورے پاکستان کی طرح ہمارا کہوٹہ بھی ان ناسور میں جکڑا ہوا ہے۔ نوجوان نسل اور طالبعلم تک اس کی زد میں ہیں۔ آج کل میڈیا کے طالب علم اور صحافیوں کیلئے سچ لکھنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا جارہاہے۔

میڈیا پہ ہم دیکھتے ہیں کہ سچ لکھنے بولنے پہ کئی صحافی جان سے گئے،اغوا ہوئے، گولیاں ماری گئیں۔ لیکن ملک عزیز سے پیار کرنے والے کبھی ڈرتے نہیں۔ایسے ہر میڈیا پرسن پہ نظر رکھی جاتی ہے۔ میڈیا کو معاشرے کی آنکھ کہا جاتا ہے جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دکھائے گا معاشرے اس کا اثر لیگا۔بات کرتے ہیں کہوٹہ کی حدود میں بگڑتے ہوئے امن و امان کی۔ ہر ملک معاشرے میں جرائم ہوتے ہیں لیکن جرائم ہونا بڑی بات نہیں بلکہ انکا خاتمہ اداروں کی ترجیح ہوتی ہے۔ دو ایسے افراد قتل ہوئے جن میں ایک لاپتہ ہوا اور نعش ملی، دوسرا مسافر تھا جو منڈی بہاؤالدین کا رہائشی تھی۔ سٹریٹ کرائم بھی کہوٹہ شہر میں آئے دن رپورٹ ہورہا ہے

۔ جبکہ دکانوں گوداموں سے چوری کے واقعات بھی تسلسل سے آرہے ہیں۔ ایک اور کرائم جس پہ قارئین سو فیصد متفق ہونگے وہ ہے کنوؤں سے موٹر چوری کا۔ کہوٹہ شہر سمیت بیور نارہ دھنیام وغیرہ میں لاتعداد کیس رپورٹ ہوئے۔ چونکہ ایسے کیسز کی اکثریت تھانے رپورٹ نہیں کرتی اس لئے یہ کسی کھاتے میں نہیں آتے

۔دوسرے سنگین جرائم جن میں منشیات فروشی، ناجائز اسلحہ خرید و فروخت سرفہرست ہیں اور دعوے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نوے فیصد اسلحے رکھنے والوں کے پاس لائسنس نہیں ہوتا۔ اسلحے کا آزادانہ استعمال شادی بیاہ و دیگر تقریبات پہ بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن یہاں پھر انتظامیہ اور پولیس کی رٹ چیلنج کرکے، سیاسی سفارش یا رشوت سے خوب شو کیاجاتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ اسلحہ کہیں اور بھی استعمال ہورہا ہوتا ہے۔ منشیات نے ہمارے معاشرے کو دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ پڑھے لکھے افراد بھی نشے کے عادی ہیں۔ نشہ تب معاشرے کیلئے ناسور بن جاتا ہے جب وہ اپنی ذات سے نکل کر اپنے اس پاس موجود معصوم لوگوں کو اس کی لت ڈالتا ہے

یا دوسری حالت میں جانی مالی نقصان پہنچاتا ہے۔ ہر گلی محلے میں آسانی سے ملنے والی یہی دو اشیا ناسور بن چکی ہیں۔جنکا قلعہ وقمع کیاجانا بے حد ضروری ہے۔ بالخصوص نوجوان اور طلبا کو اس سے دور رکھنا ہوگا۔یہ ساری تحریر اس لئے لکھنے کی ضرورت ہیش آئی کہ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے بھون میں جو ڈکیتی ہوئی جس میں ہوٹل اور اسکے مالک کو ایک ہی رات لوٹا گیا جس پہ کہوٹہ پنڈی روڈ گھنٹوں بلاک کردی گئی تھی۔

اور ایس پی صدر نے ڈاکو پکڑنے کا یقین دلایا تھا۔ دوسرا گزشتہ بدھ کو تھانہ کہوٹہ کی حدود میں کشمیر سے لاہور جانے والی بس کو جس طرح ڈاکوؤں نے روک کر بے دردی سے لوٹا۔ مزاحمت پہ فائرنگ کردی جس سے ایک سرکاری ملازم جانبحق ہوگیا اور ڈرائیور شدید زخمی ہوگیا۔ یہاں اس سے پہلے بھی ڈکیتی ہوتی رہی ہیں لیکن سوائے مقدمہ درج کرنے سے بات آگے نہیں بڑھی۔لیکن اس بار خدا کو کچھ اور منظور تھا

سرکاری ملازم کی ہلاکت اور بعد ازاں کہوٹہ میں احتجاج اور اعلی افسران تک معاملہ پہنچے اور اسکی سنگینی سے معاملات ذرائع بتاتے ہیں کہ شواہد کی روشنی میں ملزمان پکڑیں جائیں گے۔قانون و اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ کرائم کسی عام آدمی کیساتھ ہو یا خاص کیساتھ اسکے ملزمان انجام کو پہنچنے چاہئے تاکہ انتظامیہ اور پولیس پہ عوام کا اعتماد بڑھے اور معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم ہو۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں