امجد بٹ کی علمی و ادبی خدمات

کہا جاتا ہے کہ آپ کی قیمت تب ہوتی ہے جب آپ کی ضرورت ہو، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر دور میں انمول ہوتے ہیں۔ وہ کسی تحسین و صلے کی پروا کیے بغیر اپنے حصے کی قندیل جلائے رکھتے ہیں۔ ایسے افراد میں ملکہ کوہسار مری کی علمی، ادبی شخصیت امجد بٹ کا شمار بھی ہوتا ہے

وہ ایک قابل استاذ‘ رہنما اور علم و ادب سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔وہ کالم نگار، مترجم، محقق، نقاد، ما ہر لسا نیا ت، تا ر یخ نگار، خاکہ نگاراور علم و ادب سے بے ا نتہا ر غبت رکھنے والی شخصیت ہیں۔

صرف اتنا ہی نہیں وہ مختلف زبانوں؛ عربی‘اُردو اور اسپرانتوں کی ترویج و ترقی میں بھر پور انداز میں سرگرم رہتے ہیں۔ وہ قرآنِ حکم کا اسپرانتوں میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ منتخب احادیثِ مبارکہ کو بہ زبان عربی اُردو اور اسپرانتوں میں پیش کر چکے ہیں۔

وہ بطور کالم نگار ”پہاڑ جاگ رہا ہے“ کے نام سے تقریباً ایک ہزار تحقیقی و مزاحمتی کالم لکھ چکے ہیں۔ ان کالموں سے انہوں نے صاحبانِ اقتدار کو مری کے مختلف مسائل سے رُوشناس کروایا ہے۔ بطور معلم وہ ابتدا میں ایک نجی سکول جامع سبحانیہ سے منسلک رہے۔

پھر حکومت پنجاب کے پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تحت مختلف تعلیمی اداروں؛ بانسرہ گلی ہائی سکول‘علامہ اقبال ماڈل سکول‘گورنمنٹ بوائز پر ا ئمر ی سکول مری‘ گورنمنٹ بوائز ایلیمنٹری سکول سنی بینک مری اور پچاس سے زائد کالجوں، یو نیورسٹیوں میں ہزاروں طلبا و طالبات کو قرآنی تدوین و تراجم‘ لسانیات اور تاریخِ مری اور اسپر انتوں زبان و ادب کے حوالے سے بطور ریسورس پرسن (PEEF) لیکچرز دے چکے ہیں۔

بطور ماہرِ لسانیات انہوں نے جو مقالات لکھے ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں ’’کشمیری زبان و ادب کا اجمالی جائزہ‘چینی ز با ن او ر اس کے خدو خال‘ اُردو کی راہ میں بی الاقوامی رکاوٹیں‘ عربی اور عبرانی زبانوں کے باہمی روابط‘ ہمارے لسانی حقوق‘ اُردو کو دفتری زبان کیسے بنایا جائے؟‘ قرآنی اسپرانتو‘ پہا ڑ ی زبان ہماری پہچان‘ عالمگیر اسپرانتو تحر یک‘مصنوعی زبانیں‘ ایدو‘ وولا پوک اور انتر لنگو ا‘ ہسپانوی: لسانی تاریخی جائزے‘، ”آرامی:حضرت عیسیٰ کی مادری زبان اور’پہاڑی انشا ئیے

‘۔ادبی شخصیات پر بھی انہوں نے لا تعداد مقالات لکھے جن میں ’علامہ مضطر عباسی نابغہ روزگارعالم‘اقبال ثانی پروفیسر ڈاکٹر محمد ا قبا ل‘ حمید کاشمیری نامور پاکستانی ڈرامہ نگار‘سلیم شوالوی: بے مثل صحافی و نامور شاعر‘ جمیل یو سف: شہنشاہِ غزل اور نقاد‘محمد منیر عباسی: پہا ڑ ی ادب کا محافظ‘سعود عثمانی: شاہ سوار غزل‘فکر اقبال کا حقیقی عکس‘دنیائے ادب کے معمار: شا ہدبخاری‘محمد آصف مرزا: اُردو اور پہاڑی
شاعری کا نقاد‘ڈاکٹر راجہ اکرام اعظم 5 25کتابوں کا انگریزی مصنف‘ڈاکٹر شمسہ نوار: دفاعی تجزیہ نگار اور لا تعداد مضامین شامل ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے تاریخ پر بھی قلم اٹھایا اور بھولی بسری تاریخ کو قارئین تک پہنچایا۔

یوں تو بے شمار مضامین ہیں لیکن ان میں ’لارنس کا لج: تاریخ کے آئینے میں‘کوہسار یونیورسٹی مری کے فکری اور ارتقائی خد و خا ل‘ وا دئی ہنزہ سیاحوں کی جنت‘ہولی ٹرینٹی چرچ مر ی کی پہلی تاریخی عمارت‘ جیسے اہم مضامین شامل ہیں۔امجد بٹ صاحب کی چند کتب کی اشاعت حالیہ سال جون میں متوقع ہے

جن میں ’علامہ مضطرعباسی: نادر روزگارعالم‘ اور’ملکہ کوہسار مری کے اہل قلم‘ قابلِ ذکر امجدبٹ جیسے عمیق بیں اور کہنہ مشق محققین کی خدمات کا اعتراف کرنا ہمارا تہذیبی، معاشرتی اور قومی فریضہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسا پلیٹ فارم ترتیب دیا جائے جس کی بدولت امجدبٹ جیسی اہل قلم شخصیات کی فکر و دانش سے آنے والی نسلیں مستفید ہو سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں