164

محمد آصف مرزا‘ ادیب و اداریہ نویس

موجودہ دور میں اداریہ ہی رسائل کی آواز اور پالیسی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بطور ادار یہ نویس محمد آصف مرزا ”دستک مری“ کی پالیسی سے مکمل طور پر آگاہ ہیں کہ یہ رسالہ ادبی مکاتب فکر سے تعلق رکھتا ہے، ساتھ ہی مقامی مسائل کا ترجمان بھی ہے

۔ اس لیے وہ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھ کر اداریہ تحریر کرتے ہیں۔ ہر صحافی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مطالعے کی وسعت عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہونی چاہیے۔ محمد آصف مرزا بطور شاعر، ادیب اور اداریہ نویس اس خصوصیت سے معمور ہیں۔

اُن کی ذاتی لائبریری ہے جس میں دس ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔ وہ روزانہ تین سے چار گھنٹے لائبریری میں گزارتے ہیں۔ اس لیے ان کے مطالعہ کی عادت نہایت پختہ ہے۔ چوں کہ وہ معاشرتی مسائل کے مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں اور ساتھ دلائل اور تجاویز بھی دیتے ہیں

، لہٰذا وہ کسی مسئلے یا ادبی شخصیت کے بارے میں مکمل معلومات کے بعد اداریہ لکھتے ہیں۔ بطور اداریہ نویس وہ معاشرے، تہذیب و ثقافت، لوگوں کے عقائد اور رسم و رواج سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ ان چیزوں سے لاعلمی کی صورت میں یہ احتمال ہوتا ہے

کہ اداریہ نویس کے قلم سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو قارئین کے دل کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بنے۔ محمد آصف مرزا، بطور اداریہ نویس صرف حالات و واقعات اور مسائل کو پرکھنے تک محدود نہیں رہتے بلکہ وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ اپنی عقل و دانش کی روشنی میں قارئین کے ذہن کو منور کریں اور انھیں تاریک و بند کمرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئیں۔اداریہ نویس ایک جج ہوتا ہے جو دلائل سنے بغیر اپنی تحقیق و تجربے کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ اداریہ نویس کے فیصلوں سے پوری قومکی تقدیر متاثر ہو سکتی ہے۔ محمد آصف مرزا میں کسی مسئلے کو پرکھنے اور دلائل سے صحیح ثابت کرنے کے ساتھ قوت فیصلہ کی صلاحیت موجود ہے۔

محمد آصف مرزا قارئین میں غور و فکر کرنے کی صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں۔ کیوں کہ وہ خود اعلیٰ فکری صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ پہلے سے بنائے گئے نظریات کو من و عن قبول کرنے کی بجائے اپنے علم اور بالغ نظری کی بدولت سوچ بچار سے کام لیتے ہیں۔ محمد آصف مرزا میں فنی چابک دستی موجود ہے وہ مختلف النوع مسائل پر رائے پیش کرتے ہیں۔ وہ اس ضمن میں چوکنے رہتے ہیں اور کم وقت میں زیادہ کام کرتے ہیں۔

بطور اداریہ نویس وہ ملکی اور قومی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔ وہ ان تقاضوں کے وسیع دائرے جن میں اقتصادی مسائل اور دفاعی ضروریات شامل ہیں؛ سب امور کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ بیرونی ملکی پالیسیوں کے بیان میں دوست و دشمن کے فرق کا خاص خیال کے رکھتے ہیں۔

وہ ا اداریہ لکھتے وقت طرزِ بیان کے سنجیدہ ہونے کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اسی سنجیدگی کی وجہ سے قارئین ان کے اداریے اور اس میں موجود مسائل اور حقائق کو سمجھتے اور اہمیت دیتے ہیں۔ اداریہ نویس کی تجربہ کاری کی بدولت اسے اداریے لکھنے اور قارئین کی رہنمائی کا فریضہ سپرد کیا جاتا ہے۔ محمد آصف مرزا گہرے تجزیہ ومشاہدہ کی بدولت ”دستک مری” کے مدیرِ اعلیٰ اور اداریہ نویس بھی ہیں۔ اُن کے اداریے عوام کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

چوں کہ اداریے اخبار یا رسالے کی پہچان ہوتے ہیں اور ادارے رسالے اور اخبار کی پالیسی بیان کرتے ہیں اور ایک رسالے کو دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں۔ ”دستک مری“ شمارہ نمبر ۲۹ اپریل۲۰۱۵ء کے اداریہ سے اقتباس پیش خدمت ہے جو انکی فکر کو بیان کرتا ہے:”کئی برسوں سے محض اندازوں سے کام چلایا جا رہا ہے

، گزشتہ کم و بیش دو عشروں سے مردم شماری کی نوبت ہی نہیں آ سکی۔ خیر ایک طرف تو ہمارے بچوں کے یہ کھیلنے کودنے، پڑھنے لکھنے اور بے فکری سے گزارے جانے والے دن اور دوسری جانب یہ منھ اندھیرے بوروں میں گئے اور کاغذ اکٹھے کرتے بچے، یہ جا بجا کچرے کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرتے بچے، یہ ورک شاپوں میں ڈیزل گریس آئل اور پٹرول میں لتھڑے بچے، یہ ہوٹلوں اور کیٹرنگ ہاؤسوں میں دیگچے اور کڑاہے مانجتے بچے اور پھرکی کی طرح گھومتے، بغیر رکے بیرہ گیری کرتے بچے، یہ چلچلاتی دھوپوں اور ٹھٹھرتی، کپکپاتی سردیوں میں کھیتی باڑی کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے بچے، یہ گھروں میں غلاموں کی طرح کام کرتے بچے، یہ گلی کوچوں، بازاروں، جھونپڑ پٹیوں کچی آبادیوں میں ٹرٹر پھرتے آوارہ گردی کرتے بچے، بسوں اور ٹرکوں میں دن رات کلینری، قلی گیری، مزدوری کرتے

بچے، یہ ماں کے پیار اور باپ کی شفقت سے یکسر محروم سٹریٹ چائلڈ اور لیبر چائلڈ کا ٹھپہ لگائے محض اپنے پیٹ کا ایندھن بھر نے کے لئے ہر قسم کے استحصال کا شکار ہونے والے بچے، ہمارے آس پاس اور ہماری نظروں کے سامنے ہر طرح سے پائمال و خوار ہونے والے بچے، یہ میرے اور آپ کے بچے، زبان حال سے جو سوال ہم سے کر رہے ہیں؛ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ انھیں تعلیم و تربیت سے بہرہ یاب کرنا تو دور کی بات رہی

، ہم اُن کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست بھی نہیں کر سکے“۔ یہ اہم مسائل کسی عام شخص کے ادراک سے بہت اوپر ہیں۔ اس کے لیے دردِ دل رکھنے والا وسیع سوچ و فکر کا مالک ہونا ضروری ہے۔ بطور قاری اس تحریر نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے۔۔م مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ ان بچوں سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے مگر ہم کتنے بے خبر ہیں۔ ایسے ہی اس تحریر نے اس عالمی مسئلے پر اہل فکر کو سوچنے پر ضرور مجبور کیا ہو گا

۔ یہی فرائض ایک اچھے اداریہ نویس کا خاصا ہیں۔ اداریہ نویس کوئی مذہبی پیشوا نہیں ہو تا، مگر اس کا کام انتہائی کٹھن اور ذمہ داریوں سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ اپنے مخصوص فکر و نظر سے اپنے قارئین کو روشناس کرواتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں