زاہد شفیق قریشی
تحصیل گوجرخان کی جہاں کئی حوالوں سے اہمیت مسلمہ36یونین کونسلوں پر مشتمل رقبہ کے لحاظ سے پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل جو دوہرے نشان حیدر کا جھومر ماتھے پر سجائے ہوئے ہے کئی مقامات پر تیل اور گیس کے ذخائر اس کی اہمیت کو دو چند کیے ہوئے ہیں اس کے سپوت وزارت اعظمیٰ ہو ، ایون عدل یا پاک افواج کی سپہ سالاری تمام مناصب کے آخری زینہ کو چھو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اس قدیم اور رقبہ کے لحاظ سے پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل کو اس کے ضلع بننے کے حق سے محروم رکھنے کی کوششیں اپنے آخری مراحل میں ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ جس تحصیل کو ضلع بنایا جا رہا ہے وہاں کسی قانون،ضابطے یا میرٹ کے بجائے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کار فرما رکھا جا رہا ہے 36یونین کونسلوں والی تحصیل گوجرخان کے مقابلے میں پندراں یونین کونسلوں پر مشتمل تحصیل ضلع بنائی جا رہی ہے اس کی ایک ہی اہمیت ہے کہ وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی آبائی تحصیل مری ہے بد قسمتی سے گوجرخان کے منتخب نمائندوں نے چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ضلع کے لیے کبھی کسی فورم پرسنجیدہ اور ذمہ دارانہ آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی عوام کے بنیادی مسائل کے حوالہ سے کوئی سنجیدہ کوشش کی ہزار کنال سے اوپرزمین جی ٹی روڈ باولی سٹاپ کے سامنے ا یکوائر ہوئے کئی سال گزرنے کے باوجود چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ منتخب قیادتیں مرکز اور پنجاب میں اقتدار میں ہونے کے باوجود یونیورسٹی اور ضلع جیسا اہم اور دیرینہ مطالبہ صبح فردا کو ترستا رہا ہے صحت کے حوالہ سے ٹی ایچ کیو گوجرخان میں ٹراماں سینٹر بننے کے باوجود اسے منتخب قیادتیں فعال نہ کرا سکیں حدیث مبارکہ ہے کہ لوگوں میں بہترین ہے وہ جو دوسروں کو نفع پہنچائے قابل ذکر امر یہ ہے کہ اگر اس تحصیل کے باسیوں کے لیے کسی نے کچھ کیا ہے تو وہ اس کے سپوتوں نے ذاتی حثیت میں ہی کیا ہے جو منتخب نمائندے بھی نہ کر سکے میں یہاں اس شخصیت کا ذکر نہ کروں تو یہ نفس مضمون کے ساتھ زیادتی ہو گی ممتاز صحافی سینئر تجزیہ کار شہزاد احمد قریشی جن کا شمار پاکستان کے نمایاں قلم کاروں میں ہوتا ہے حکومتی مقتدرہ شخصیات سے ذاتی گہرے مراسم ہیں خصوصا چیف منسٹر پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ان سے حق دوستی نبھاتے ہوئے ان کی خواہش پر کہ پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل گوجرخان کے عوام کو تفریح کی سہولت میسرنہ ہونے کی وجہ سے اس کی نوجوان نسل گھٹن زدہ ماحول میں نفسیاتی عارضوں اور گمراہی کا کا شکار ہو رہی ہے وہاں ایک پارک بنانے کے احکامات صادر کیے جائیں اس کے علاوہ گوجرخان کی لاکھوں کی آبادی کے لیے ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہے جس میں صحت کی سہولتوں کا شدید فقدان ہے جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہزاد احمد قریشی کے مطالبہ پر پارک کی منظوری دیتے ہوئے اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب جاوید محمودکو احکامات صادر کیے جنہوں نے سیکرٹری پنجاب ارشد محمود کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر گوجرخان جا کر وہاں پارک اورہسپتال کے حوالہ سے ہنگامی بنیادوں پرپارک کی تعمیر اور ہسپتال کی بہتری کے لیے اقدامات کریں سیکرٹری پنجاب اس سلسلہ میں ایک ہفتہ گوجرخان میں رہ کر پارک کے لیے جگہ اور دیگر معاملات کے لیے کام کرتے رہے اس سلسلہ میں سابقہ چیف سیکرٹری پنجاب جاوید محمود کا اہم کردار رہا انہوں نے ایک صوبائی سیکرٹری پنجاب ارشد محمود کو گوجرخان بھیجا کمشنر راول پنڈی کے دفتر میں اس وقت کے کمشنر راول پنڈی اور موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر)زاہدسعید احمد ،سینئرتجزیہ نگار شہزاد احمد قریشی اور سیکرٹری پنجاب ارشد محمود مسلسل کئی دنوں تک اس سلسلہ میں میٹنگ کرتے اور پارک کی جلد از جلد تعمیر کے لیے کام کرتے رہے محکمہ جنگلات کے افسران سے میٹنگ ہوتی رہیں اور اس کے بعد پارک( شریف فیملی پارک) کی باقاعدہ منظوری دی گئی اور پراسس شروع ہو گیا اور سیکرٹری ہیلتھ نے بھی تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے لیے فنڈز کا اجرا کر دیا دریں اثناء پارک کی منظوری کی خبر ملنے پر پر بعض مقامی مسلم لیگ ن کے کے حلقوں کی طرف سے لاہور سے نوٹفکیشن لاکر کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئی واقفان حال یہ کہتے ہیں کہ اس پارک کی منظوری میں نہ تو کسی سیاسی نے آغاز کیا تھا اور نہ ہی اس کی منظوری میں شہزاد احمد قریشی کے علاوہ کسی کا کردار ہے اگر کوئی کریڈ ٹ لینے کی کوشش کرے گا تو وہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیوں کہ باشعور عوا م حقائق کا بہتر ادراک رکھتی ہے بہر حال خراج تحسین کے لائق ھے شہزاد احمد قریشی جنہوں نے وہ قرض بھی چکایا جو شائد اس پر واجب بھی نہیں تھا
125