ارسلان اصغر کیانی
کہوٹہ تحصیل ضلع راولپنڈی کی سب سے بڑی اور پسماندہ تحصیل تھی مگر سیاسی اور انتظامی امور کی وجہ سے کوٹلی ستیاں اور کلر سیداں کو کاٹ کر مزید دو تحصلیں بنا دی گئی جو تحصیلیں بعد میں وجود میں آئیں وہ تعمیر و ترقی اور دیگر معاملات میں کہوٹہ سے بہت آگے جاچکی ہیں جبکہ کہوٹہ تحصیل تو درکنار کہوٹہ شہر آج بھی وہاں ہی کھڑا ہے جہاں پچاس سال پہلے تھا کئی دور گزرے کئی جماعتوں کی حکومتیں آئیں زیادہ تر منتخب نمائدوں کا تعلق بھی اسی تحصیل سے رہا مگر کسی نے مسائل حل کرنے کی کوشش نہ کی کہوٹہ آزاد پتن جو کہ ڈیفنس روڈ ہے جسکی تعمیر شروع ہے مگر افسوس کہ محکمہ اور ٹھیکدار کی ملی بھگت سے سڑک کا جو حصہ تعمیر ہوا حالیہ بارشوں سے اسکا سارا میک اپ اتر گیا اور سڑک کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے اسی طرح کہوٹہ چوک پنڈوری روڈ کہوٹہ مٹور روڈ جن پر تقریبا ایک ارب کے قریب تک کی لاگت سے کام ہوا ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ ناقص مٹریل کی وجہ سے توٹ پھوٹ کا شکار ہیں دیواریں ٹوٹ گئی ہیں کئی ماہ گزر گئے محکمہ ہائی وے نے ٹوٹی ہوئی جگہوں میں کھڈے ڈالے تھے تا کہ ان میں نئی پری مکس ڈالی جائے مگر تا حال وہ کھڈے اسکی طرح ہیں تحصیل ہیڈکواٹر ر ہسپتال جو کہ کئی کنالوں پر تعمیر ہوا مگر اسکی بوسیدہ اور پرانی عمارت نئی نہ بن سکی تحصیل کے واحد ہسپتال کا بجٹ جو کہ چند لاکھ تھا ایم پی اے راجہ محمد علی کی کاوشوں سے اب سالانہ کروڑوں روپے ہے اور نئے ایم ایس ڈاکٹر سہیل اعوان نے ایمرجنسی کو بھی اپ گریڈ کیا ہے او پی ڈی میں بھی اضافہ ہوا مگر اسکے باوجود اس تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال کو فوری طور پر اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے اور جدید عمارت تعمیر کر کے سرجن داکٹر ای این ٹی سپیشلسٹ اور دیگر ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کیا جائے ٹی ایچ کیو کی اپ گریڈیشن اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ آزاد کشمیر کی تمام ٹریفک یہا ں سے گزرتی ہے کھنڈرات نما سڑکوں کی وجہ سے آئے روز حادثات رونما ہوتے ہیں اور یہاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو راوالپنڈی ریفر کر دیا جاتا ہے جن میں سے کئی راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں سرجن ڈاکٹر موجود نہ ہونے کی وجہ سے غریب لوگ چھوٹا سا آپریشن بھی کرائیں تو پچس سے تیس ہزار روپے پرائیویٹ کلینکوں میں دینے پڑتے ہیں چائلڈسپشلٹ ،ای این ٹی سپشلٹ پہلی بات تو موجود نہیں اگر غلطی سے کسی کا تبادلہ ہوجائے تو وہ ایک دو ماہ بعد تبادلہ کرا لیتاہے لیبارٹری اتنی معیاری نہیں کہ یہاں پر قسم کے ٹیسٹ کرائے جاسکیں شہر میں دوسرا بڑا مسئلہ صاف اور شفاف پانی کا ہے سابق تحصیل ناظم راجہ طارق محمود مرتضی ٰ کے دور میں22 کروڑ کا واٹر سپلائی کا منصوبہ شروع کیا گیا جس کا مقصد تھا کہ ٹاؤن میں رہنے والے پر شخص کے گھر پانی کا کنکشن ہو اور فلٹر کیا ہو ا صاف پانی مل سکے مگر دو سال کے بعد حکومت تبد یل ہوگئی اور یہ منصوبہ سات سال گزرنے کے باوجود مکمل نہ ہوسکا محکمہ پبلک ہیلتھ اور ٹھکیداروں کی ملی بھگت سے کروڑوں کی کرپشن کی گئی چند بڑے پائپ ڈالنے اور کچھ ٹیکیاں بنانے کے علاوہ کچھ نہ کیا گیا اسی طرح سوریج کے لئے رکھا گیا آٹھ کروڑ کا فند ز بھی چند گلیاں تو ضر ور بنادی گئیں مگر سوریج سسٹم کا مسئلہ اسی طرح موجود ہے جسکی وجہ سے بارشوں میں پانی کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے پانی گھروں دوکانوں اور مساجد میں چلا جاتا ہے جبکہ نواز کالونی میں نالے پر تجاوازت کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جبکہ شہر کی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں ٖ مسلم لیگ ق کے دور میں سابق ناظم راجہ طارق محمود نے کہوٹہ ہائی سکول کے گرونڈ کے لیئے 60 لاکھ روپے کی گرانٹ منظور کرائی اور اس منصوبے کے تحت یہا ں پر لوگوں کے بیٹھنے کے لئے سیٹں ،پانی کا انتظام ،ویٹینگ روم کے علاوہ امریکہ سے گھاس منگواہ کر لگائی مگر اس ملک کی جڑوں کو کرپشن نے کھوکھلا کر دیا ہے امریکن گھاس تو کیا پاکستانی گھاس بھی ختم کر دی گئی چند سڑھیاں بنا کر ایک دو کمرے بنا کر محکمہ اور ٹھیکیددار کی ملی بھگت سے لاکھو ں کے فنڈز ہڑپ کر دئے گے اسی طرح ایک اور اہم مسئلہ کہوٹہ بائی پاس کا بھی ہے جو فوری حل طلب ہے کہوٹہ میونسپل کمیٹی وجودمیں آنے کے بعد چےئر مین ایم سی کہوٹہ راجہ ظہور اکبر کی خصوصی کاوشوں سے راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کا کہوٹہ میں قیام بھی ہو گیا ہے جس سے صفائی کے انتظامات میں بہت حد تک بہتری آئی ہے شہری امید کرتے ہیں کہ روالپنڈی ویسٹ منیمنجٹ کمپنی صرف شہر تک محدود نہیں رہے گی بلکہ گریڈ دھپری ، فاروق کالونی ، چھنی اعوان اور دیگر وہ علاقہ جو ایم سی کہوٹہ میں شامل ہیں وہاں بھی صفائی کے انتظامات کو بہتر بنایا جائے گا گر میاں نواز شریف کے دورہ نڑھ کے موقع پرکیے گئے اعلانات پر اگر وزیر اعظم شاہد عباسی عمل در آمد کروا دیں تو علاقہ کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا ہو گاوہاں انکے سیاسی قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہو گا باقی رہا مسئلہ ریسکو 1122 کا تو معاون خصوصی راجہ محمد علی نے حل کر ا دیا اور تزی سے کام شروع ہے جبکہ اے سی بسیں بھی چلنا شروع ہو گئی ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ منتخب نمائیدے باقی مسائل پر بھی خصوصی توجہ دیں گے