107

ڈوبتی انسانیت کی جھلک/محمد سکندر چوہدری

ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب انسان بہت ہی جھگڑالو خیال کیا جاتا تھا ،آئے دن کسی نہ کسی طرف سے خبر آ جایا کرتی تھی کہ فلاں جگہ لڑائی ہو گئی ہے دو چار بندے جہانِ فانی سے کوچ کر گئے یا زخمی ہو گئے ہیں، لیکن وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی لڑائی اور دوسرے انسانوں سے اختلاف نے جدت اختیار کر لیاور اب لڑائی کھلے میدانوں میں ہونے کی بجائے نئے انداز میں ہونے لگی ہے اب بظاہر تو انسان نے منافقت اختیار کر لی ہے لیکن اپنے مخالفین کو قابو کرنے کے لئے جادو ٹونے اور تعویذگھنڈے کا سہار ا لینا شروع کر دیا ہے، جس سے پیروں کی طلب میں بھی اضافہ ہواہے اور اس کے نتیجے میں نیک اور پاکیزہ لوگوں کے ساتھ دو نمبر پیروں نے بھی ملک عزیز میں ڈھیرے ڈال لیے ہیں۔حقیقت میں پیر فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب بزرگ ہے لیکن موجودہ دور میں ہر گلی محلے میں دونمبر پیر اپنی دوکان کھولے بیٹھے ہوئے ہیں جہاں نہ صرف خلافِ شریعت اعمال کیے جاتے ہیں بلکہ آئے دن ان مقامات پر کسی نہ کسی انداز میں بنتِ حوا کی عزت سے بھی کھلاجاتا ہے کبھی اسے اولادِنرینہ کی خوش خبری سنا کر اورکبھی اسے بہتر مستقبل کی نوید سُنائی جاتی اور اسے مکُرو فعل کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے موجودہ دور میں انسان اپنی ہواس ،بغض ،کینہ اور زیادہ حاصل کرنے کی طلب میں انسانیت کی حدود پھلنگاتا جا رہا ہے خاندانی نظام دن بدن پیسے کی نظر ہوتا جا رہا ، خود سے آگے نکلتا کسی کو دیکھ کرانسان برداشت کے بت کا سرقلم کر رہا ہے قریبی رشتے خونی دُشمن بنتے جا رہا ہیں، محنت سے زیادہ اور نصیب سے آگے نکلنے کی کوشش کی جا رہی ہے،کم حاصل اور اللہ کی رضا پر توکل دم توڑ رہا ہے ۔ایسے حالات میں مایوسی اور نا امیدی کے سائے لمبے ہوتے جا رہے ہیں اور نقلی ، جعلی اور دو نمبر پیروں کے ورے نیارے ہو رہے ہیں موجود ہ دور کا انسان اللہ پر توکل چھوڑ کر غیر شرعی کاموں میں پیش پیش ہے، کبھی تو کسی کو تکلیف پہنچانے کے لئے اپنے لاکھوں ہزاروں روپے اڑاتا ہے اور کبھی خود کسی جعلی پیر کی باتوں میں آکر اپنے بیٹے ذبع کر رہا ہوتا ہے ،آئے دن ایسے واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں جو اسلامی ریاست کے منہ پر دھبہ کی مانند ہیں ۔اگرچہ دینِ اسلام میں کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ اس کی زبان ، ہاتھ یاکسی عمل سے دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچے اور اس کے علاوہ حقوق العباد پر بھی خصوصی ر ہنمائی فرمائی گئی ہے کہ اللہ انسان کو اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہے لیکن بندے کے حقوق اس وقت تک معاف نہ ہوں گئے جب تک وہ خود معاف نہ کرے، تو کیا ایسا انسان جو کسی دوسرے انسان کو تکلیف دینے یا نیچا دیکھنے کی خاطر غیر شرعی اعمال کا سہارا لیتا ہے وہ اپنے آپ کو بارہ گاہِ الہی میں کہاں پر دیکھتا ہے، کیا اسے یہ سب کرنے کے بعد بخشش کی امید رکھنی چاہیے،قرآنِ کریم میں سورہ الفلق اور سورہ الناس ایسی ہیں جو کہ کسی بھی قسم کے سائے اورجنات کے لئے کافی ہیں تو دور حاضر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی غیر شرعی جگہوں پر جانے کی بجائے ان کا سہارا لیں اور اپنے ایمان کو ڈوبنے سے بچائیں، اس کے علاوہ جہاں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسے ٹھاکانوں جہاں خالفِ شریعت کام ہو رہے ہیں ان کا قلع قمع کریں وہی علماءِ وقت کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ منبرِ رسولﷺ اور مصلحِ رسولﷺ کا حق ادا کریں اور غریب اور سادہ لوح لوگوں کے رہنمائی فرمائیں اور ان لوگوں کو بھی راہِ راست پر لانے کی سعی کریں جو شاید دین کے متعلق اپنی نابلد سوچ یاپیمانہِ برداشت کے لبریز ہونے سے غلط ڈگر پر چل نکلے ہیں انہیں اللہ پر توکل ،خود پر ضبط اور احکامات اسلامی کے متعلق روشنی فراہم کر کہ راہِ راست پر لانے کے لئے حتہ الوساکوششیش کی جائیں تو معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں