251

ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں کیک/فائزہ عابد جعفری

روایات کا ماخذ مذہب ہو یا معاشرہ ، یہ بہر صورت تغیر پذیر ہیں۔ ایک وقت میں جو چیز لازم و ملزوم نظر آتی ہے کچھ عرصے بعد وہ فضول لگنے لگتی ہے۔ بقا اور اسکا حسن یقیناًتغیر مٰن ہے نہ کہ جمود میں۔ لیکن پھر بھی چند روایات یا اقدار ایسی ہوتی ہیں جنکو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ معاشرتی زندگی کا حصہ بنائے رکھنا انکے مقصد بنائے رکھنا اچھا لگتا ہے۔ بالخصوص وہ روایات و اقدار جنکا تعلق دین مذہب یا معاشرتی خوشحالی کے قیام سے ہو۔ مہینہ رمضان کا ہے تو یہں سے شروع کرتے ہیں، مجھے یاد ہے آج سے چند برس پہلے کے رمضان المبارک میں گھروں کے د ستر خوان اتنے وسیع اور پر تعییش نہیں ہوا کرتے تھے جتنے آج ہیں۔ اور نہ ہی اس طرح ولیمے کی طرح دھوم دھام سے افطار پارٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ ہاں ایک خوبصورت روایت ضرور موجود تھی، کہ جس دن افطار کے لئے پکوڑوں کے علاوہ کچھ اضافی چیز بن جائے اس دن پورے محلے میں پلیٹ کو چکر لگوایا جاتا تھا۔ اور جس جس کے گھر پلیٹ جاتی وہاں سے خالی واپس نہ آتی تھی۔ صرف رمضان کی ہی کیا بات کیجئے گا، عام دنوں میں بھی برخوردار کو اگر گھر کی مرغی پسند نہیں آئی تھی تو ہمسایوں کی دال کے ساتھ آرام سے اسکا تبادلہ کر لیا جاتا تھا۔ جس سے یہ بھی پتہ چل جایا کرتا تھا کہ آج ساتھ والوں کے گھر میں چولھا جلا بھی تھا یا نہیں۔ ترکاری کی صورت میں اور خلوص کے اس تبادلے سے اہل محلہ مین محبت کا ایک خوبصورت رشتہ قائم ہوتا تھا اور تب اس ’تبادلہِ پلیٹ‘ کو یہ کہہ کر معیوب نہ گردانا جاتا تھا کہ ’ ہم کوئی بھوکے ننگے ہیں؟ یا ہم کسی کے دانے کھانے والے ہیں۔۔ ‘ ۔
باتمحبت کی چلی ہے تو رمضان میں اس کے حوالے سے ایک اور بھی بہت خوبصورت روایت پائی گئی ، جسکو حدیث نبویﷺ کے مطابق بھی باہمی محبت میں اضافے کا موجب کہا گیا گیا ہے ، یعنی تحائف کا تبادلہ۔ آپکو بھی یاد ہوگا آج سے پانچ یا چھ سال پہلے کی بات ہے، جوں ہی رمضان کا عشرہِ رحمت انجام کو پہنچتا تھا، سکول کالج کے طلبہ و طالبات چھٹی کے بعد کینٹین یا گلی محلے کی دکانوں پر رش لگائے ملتے تھے ۔ ا ن دکانوں پر دھاگے کی ڈوروں کے ساتھ بہت سے عید کارڈ لٹکے ہوتے تھے۔ رنگ برنگے چمکیلے کارڈز میں اتنی کشش ہوتی تھی کہ خریدنے کے لئے انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا تھا20 اور 25 روپے والے کارڈ قیمتی ترین کارڈز میں شمار ہوتے تھے جنکو صرف دیکھ کے ہی خوش ہو جایا کرتے تھے، اور دل میں کوئی ملال یا حسرت بھی نہیں بچتی تھی۔ تقریبا 50% کارڈوں کے اوپر قدیم قاصدِ محبت یعنی کبوتر کی تصویر بنی ہوتی تھی۔ ساتھ ہی کسی ڈبے میں ایک اور دو روپے والے چھوٹے کارڈز بھی ہو ا کرتے تھے جن پہ چھوٹے بچے ’ ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں کیک میرا دوست لاکھوں میں ایک‘ لکھوا کہ اپنے دوستوں کو دیا کرتے تھے۔ ایسی ہی دکانوں پر کانچ کی چوڑیاں بھی ہوا کرتی تھیں جو کبھی لڑکیاں بہت شو ق سے پہنا کرتی تھیں۔ کیوں کہ اس زمانے میں کلائی ڈھانپنے کا رواج موجود تھا۔ آج چونکہ چوڑیاں مردوں نے پہن لی ہیں( معذرت کے ساتھ) اسلئے خواتین کی چوڑیوں سمیت آستینیں بھی غائب ہیں اور کلائی بہت دور تک برہنا ہے۔ خیر بات عید کارڈ کی ہو رہی تھی، تو جناب آپکو یاد ہوگا ہم چھوٹے سے کارڈ پہ یہ جملہ بھی لکھوایا کرتے تھے کہ ’ میر ی طرف سے آپکو اور آپ کے اہلِ خانہ کو ’’ دلی عید مبارک‘‘ قبول ہو‘۔ اس دلی عید مبارک سے ہم اس وقت بہت چڑتے تھے جب سارا خاندان اور محلہ ٹی وی کے سامنے عید کی دوپہر کوئی پرانی فلم دیکھنے کے لئے جمع ہوتا تھا ، اور بلی مارکہ صابن اور فریسکو سویٹ والے فلم میں طویل وقفے کے دوران بار بار اہلِ وطن کو دلی عید مبارک پیش کرتے تھے۔ ۔ اس طویل وقفے کے باوجود نہ تو کوئی اپنی نشست سے برخاست ہو کر فیس بک اور واٹس ایپ پہ سیلفی اپ لوڈ کرنے کے لئے جاتا تھا اور نہ ہی کوئی چاند رات کی آوارہ گردیوں سے تھک کر عید کو ’ بورنگ‘ کہہ کہ لمبی تان لیا کرتا تھا۔ تب محبتیں فیس بک پر اپ ڈیٹ ہوتی تھیں، نہ وٹس ایپ پر شیئر، تب یہ سٹیل کی پلیٹوں میں بٹتی تھیں اور گتے کے کارڈوں میں ارسال ہوتی تھیں۔۔۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں