69

چوہدری نثار علی اورقمرالسلام راجہ/چوہدری عاطف افتخار

این اے52وفادار لوگوں کا حلقہ ہے بالخصوص ن لیگ کے چوہدری نثارعلی کے لیے ان لوگوں کی وابستگی اور رفاقت مثالی رہی ہے ۔ سابق صدر جنرل مشرف کا دور آمریت ہو یا نیا پاکستان بنانے کا خواب ن لیگ کا ووٹر کسی سے بھی مرغوب نہ ہوا اور ثابت قدم رہا۔ سیاسی حالات نے انگڑائی لی اور ۹ سالہ دور آمریت کے بعد ایک بار پھر ملک جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوا۔2008 ء کے الیکشن ہوئے ن لیگ پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم پنجاب میں ن لیگ نے واضح اکثریت سے صوبائی حکومت بنائی۔ ق لیگ والوں نے صدر مشرف کے زیر سایہ اپنی آخری کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ وقت گزرتا گیا ق لیگ سیاسی افق سے غائب ہوتی چلی گئی۔ اب ان میں سے کسی نے ن لیگ سے رجوع کیا تو کسی نے پی پی پی سے ، سیاسی وابستگیاں بدل گئیں۔ مفادات، ترجیحات اور بلاشبہ کچھ مجبوریاں عوامی نمائندوں سے اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ حکومتی پارٹی سے ناطہ استوار رکھیں تا کہ عوام کے مسائل حل کرسکیں۔ جمہوریت کا حسن کہہ لیں یا خرابی، بہر حال اس میں امیر، غریب، تعلیم یافتہ، ناخواندہ، سب کے ووٹ کی حثیت ایک سی ہوتی ہے لیکن سیاسی رہنما بالخصوص چوہدری نثار دھڑے کی سیاست کرتے ہیں۔ اس طرز سیاست میں یونین کونسل سے چند چیدہ چیدہ رہنماوں کو ایم این اے تک رسائی اور شنوائی کا استحقاق ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے اس طرز سیاست کی وجہ ٹائم مینجمنٹ ہو لیکن یہ کسی صورت بھی خوشگوار رجحان نہیں ہو سکتا کہ چوہدری نثار ایک عام ووٹر کے مسائل سے نا بلد ہوں یا محض مختلف علاقوں کے با اثر افراد کی مدد سے عوام سے رابطہ استوار رکھیں۔ رابطہ کی بات کریں تو پی پی 5کے قمرالسلام کا حلقہ کے عوام سے رابطہ مثالی ہے ۔ ایک غریب سے غریب شخص بھی کسی بھی وقت ان سے فون پر رابطہ کر سکتا ہے اور ہر اتوار ان کے دفتر جا کر بالمشافہ ملاقات کر کے اپنے مسائل بیان کر سکتا ہے ۔ تاہم حیران کن امر یہ ہے کہ مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا راجہ صاحب کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اختیارات یا تو بہت محدود ہیں یا محدود کر دیے گئے ہیں۔ پی پی5 کے لوگ ایک طرح کی فرسٹریشن کا شکار ہیں کہ ایم پی اے تک رسائی تو ہے لیکن ان کے اختیارات محدود ہیں اور ایم این اے جو بڑے سے بڑا مسئلہ حل کرسکتے ہیں لیکن خود ان تک اپنی بات پہنچانا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔عوامی مسائل کے حوالے سے یونین کونسل ساگری ۱۱۱ کی صورتحال دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی ۔ توپ مانکیالہ اور ڈھکالہ اس یونین کونسل کے دو بڑے گاوں ہیں جن کا مجمعومی ووٹ کم و بیش ۳ ہزار ہے ۔ تاہم مسائل کے اعتبار یہ دو ملحقہ گاوں سر فہرست ہیں۔ یونین کونسل ساگری میں صورتحال یہ ہے کہ دور دراز کسی جگہ پر واقع ایک اکیلا گھر بھی سوئی گیس کی سہولت استعمال کر رہا ہے لیکن ان دونوں دیہاتوں میں موجود ہزاروں گھرانے سوئی گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ سوئی گیس سے بھی اہم مسئلے راستے کا ہے جو کہ توپ مانکیالہ، ڈھکالہ، ڈھوک میرا، ڈھوک فاطمہ اور ان سے ملحقہ کچھ اور آبادیوں کا راستہ ہے ۔ یہ راستہ مانکیالہ اسٹیشن سے سے توپ مانکیالہ کی طرف جاتا ہے جبکہ ڈھکالہ اور دوسرے گاوں اسکے وسط میں واقع ہیں اس راستے کا نصف حصہ ریلوے پٹری کے ساتھ ہے جو کہ ریلوے کی حدود کے اندر واقع ہے جسکی کی وجہ آج تک یہ راستہ پختہ نہیں ہو سکا حالیہ دنوں میں ریلوے نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ ٹریک ڈبل کرنا ہے تاہم باقی کا سرکاری راستہ بھی ایسا ہے جیسے کسی جنگل، صحرا، یا کسی پتھریلے راستے سے آُپ کا گزر ہو۔ نکاسی آب کا کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سڑک کسی ندی نالے کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے ۔ اب بات کرتے ہیں کہ ان دونوں دیہاتوں کا قصور کیا ہے کہ انہیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے ۔ تو حقیقت یہ کہ ماضی میں توپ مانکیالہ اور ڈھکالہ کے ارباب اختیار کا تعلق ق لیگ سے رہا ہے ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ق لیگ کے نمائندوں کو پوری یونیین کونسل ساگری سے سپورٹ حاصل رہی۔ وقت آیا حکومتیں بدلی، وفاداریاں اور مفادات بھی تبدیل ہوئے لیکن سزا صرف ڈھکالہ اور توپ مانکیالہ کے عوام کے حصے میں آئی۔2008 اور2013ء کے الیکشن ہوئے ، توپ مانکیالہ میں ن لیگ کے ووٹرز نے تمام جرت اور بہادری کا مظاہرہ کرے ہوئے چوہدری نثار کی الیکشن کمپین چلائی اور انہیں توپ مانکیالہ کا پولنگ اسٹیشن جتوایا، اب جبکہ یہاں کی عوام نے اپنا فیصلہ ن لیگ کے ترازو میں ڈال دیا تو گاوں پر کسی ایک شخصیت کی چھاپ کی وجہ سے اسے نظر انداز کیوں کیا گیا؟ کیا توپ مانکیالہ کے عوام یہ حق نہیں رکھتے تھے کہ مخالفت کی ایک فضا میں ن لیگ کو کامیاب کرانے کے بعد ترجیح بنیادوں پر ان کے مسائل حل کیے جاتے ؟ کیا کوئی دھڑا اس قدر اہم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے باقی ووٹرز کی کوئی حثیت نہ رہے ؟ ۲۰۰۲ کے الیکشن میں بھی کم سہی لیکن ن لیگ کے ووٹرز نے اپنی پارٹی کو ووٹ دیا۔ ۸۰۰۲ کے الیکشن میں ہم نے جس قدر مسائل سے ن لیک کو اس پولنگ اسٹیشن سے کامیاب کرایا ہم ہی جانتے ہیں، مبینہ دھاندلی کو رکوانے کی ہم نے جو کوششیں کی اس کے جواب میں ہم پر غنڈوں سے حملے تک کرائے گئے ، بہر حال ہم ڈٹے رہے ، نہ ڈرے ، نہ بکے اور نہ ہی جھکے ۔
میں جھکا نہیں میں بکا نہیں
کہیں چھپ چپھا کہ بھی کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہیں محاذ پر
مجھے ان صفحوں میں تلاش کرسوال یہ ہے کہ کیا توپ مانکیالہ کے کسی فرد کا چوہدری نثار سے براہ راست رابطہ نہیں ہو سکتا؟ لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں ووٹ دیے ہیں تو مسائل حل کیوں نہیں ہورہے ۔ شاید ہم اس دھڑے بندی کی سیاست کا شکار ہو گئے ۔ چوہدری نثار کو یہ ادراک کرنا ہو گا جو لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ ق لیگ کے بہت سے لوگ آج ن لیگ کا حصہ ہیں۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی محدود ہو چکی ان میں سے بھی بہت سے لوگ ن لیگ کی طرف رجوع کرچکے ہیں۔ باقی رہے وہ لوگ جو کہ اپنی ضد، انا کی وجہ سے ن لیگ میں تو نہ آ سکے پی ٹی آئی میں جانے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا، ق لیگ نے جب بلدیاتی الیکشن کرائے تو پوری یونین کونسل ساگری نے اس کے نمائندگان کو ووٹ دیا، لیکن ق لیگ جس کے کارکنان آج چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ، مانکیالہ اور ڈھکالہ کو رسوا کر گئی۔ عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی ن لیگ کے ووٹرز نے آخری امید سمجھ کر ووٹ دیا کہ تاریخ شاہد ہے کہ ترقیاتی کام کرانے میں چوہرری نثار کا کوئی ثانی نہیں۔ کوئی مائی کا لال کلر روڈ کو دو رویہ نہیں کرا سکتا تھا یہ چوہرری نثار کا ہی خاصہ ہے ۔ مشرف دور کے بعد پہلی دفعہ بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اہلیان توپ مانکیالہ اسی امید سے چوہدری نثار کے نامزد امیدوار کو منتخب کرائیں گے کہ جس پارٹی کو25 سال سے ووٹ دیا اور جن کی حکومت بھی ہے جب ان کا ایک نامزد امیدوار منتخب کرائیں گے تو ہمارے مسائل یقینی طور پر حل ہونگے ۔ آخرمیں چوہری نثار علی خان سے ایک دفعہ پھر گزارش ہے ن لیگ کو سپورٹ کرتے ایک نسل جوان ہو چکی ہے اس جوان نسل سےان کا براہ راست رابطہ ہونا بہت ضروری ہے ۔ لوگوں کے اعتراضات کا ہم یہی جواب دیتے ہیں کہ ابھی تک عوامی سطح پر ن لیگ کا نمائندہ منتخب نہیں ہوا۔ اس لیے جس پارٹی کو ہم نے عام انتخابات میں کامیاب کرایا اسی کے نامزد چیئرمین کو کامیاب کرا کر اپنے مسائل حل کرائیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں