سونیا پولیس گردی کا شکار ہوکر تھانے کے سامنے اس ظالمانہ نظام سے ہار کر موت کو گلے لگالے یا پھرمظفر گڑھ کا نوجوان پٹوار کلچر کے ہاتھوں تنگ آکر زندگی کی بازی ہار جائے اس ملک کے حکمرانوں کو جگانے کیلئے شاید ابھی یہ کافی نہیں ہے۔ سونیا اور شہباز تو اس ملک اور خاص طورپر پنجاب میں رائج ان ظالمانہ نظاموں سے لڑتے لڑتے ہارگئے مگر ان کی یہ قربانیاں بھی شاید ابھی بڑے عرصے تک پنجاب میں نظام کی تبدیلی کی کوئی نوید سنانہ سکیں ۔ مکمل طور پر پولیس اور ریونیو اس وقت اس ملک کے حکمرانوں کی لونڈیاں بن چکے ہیں ۔ پولیس مکمل طور پر سیاسی ادارہ بن چکی اور پٹوار خانہ پنجاب کے حکمرانوں کے فرمان شاہی کے تابع ہوچکا ۔ پولیس گردی کا اژدھا اب دن بدن پنجاب کیلئے ایک مستقل مصیبت کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ عوام کے مفاد ،تحفظ اور سہولت کیلئے قائم کردہ انگریزدور کے ان نظاموں نے پنجاب کے عوام کا بیڑا غرق کردیا ہے ۔اسے پنجاب کے حکمرانوں کی مجبوری سمجھیں یا ضرورت، یہ حکمران کبھی بھی تھانہ اور پٹوارخانے کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جس طرح کی ایڈمنسٹریشن اور گورننس پنجاب کے اندر پنجاب کے حکمران کرنا چاہتے ہیں ایسے نظام میں ان دونوں اداروں کا مکمل طور پر ان حکمرانوں کو کنٹرول میں رہنا ناگزیر ہے ۔ پولیس کے پاس اس قدر بے جااختیارات اور ان پر کسی قسم کی قدغن نہ ہونے سے آج تھانیدار خود کو اس علاقے کا مالک سمجھتا ہے ۔ روزانہ سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات پنجاب کے اندر ایسے رونما ہورہے ہیں کہ اس صوبے کے عوام تھانہ کلچر اور پٹوار خانے کے ظلم کی چکی میں پستے ہی چلے جارہے ہیں ۔ پنجاب میں تھانیدار اس قدر اپنے اختیارات میں خود مختار ہے کہ FIR کی صورت اس کے لکھے چند افراد اس ملک کے کسی بھی شہری کو ساری زندگی کیلئے خوشیوں سے محروم کرسکتاہے۔ سونیا جیسے المناک واقعات کے بعد کیا ہوگا ۔زیادہ سے زیادہ ان اہلکاروں کو معطل کرکے مقدمات درج کرلئے جائیں گے اور ناکافی شہادت گواہوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ لوگ پھر بحال ہوجائیں گے۔ ظلم کا شکار سونیا کے گھر جاکر چند لاکھ روپے امداد اور ہمدردی کے چند بول ۔مگر پولیس اور پٹوار کی اس موجودہ نظام کی اصلاح سے متعلق اس ملک کے حکمران کچھ بھی نہیں کریں گے ۔ یہ نظام اسی طرح عوام کا خون پی کر پنپتارہے گا۔ نظام میں تبدیلی کیا بڑی بڑی شاہراہیں بنادینے ،میٹرو بسیں چلادینے اور بڑے بڑے منصوبوں کے افتتاح کرنے سے آئے گی۔ حکومتی اداروں کے اندر سیاسی اثر و رسوخ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب آپکو تھانہ جانے سے پہلے مقتدر جماعت کے کسی سربراہ یا اس جماعت کے کسی سابقہ یاموجودہ ایم این اے یا ایم پی اے کی سفارش ڈھونڈنا پڑتی ہے ۔ پنجاب کے تھانوں اور پٹوارخانوں کے اندر رشوت بطور حق طلب کی جارہی ہے ۔ کوئی کسی پر کیا ہاتھ ڈالے سب ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہیں ۔ پٹواری کیخلاف اے سی یا ڈی سی او کے پاس شکایت لیکر جائیں تو درخواست پرسوائے چند مخصوص الفاظ لکھنے کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جب تک پنجاب کے اندر پولیس کو مکمل طور پر سیاست سے پاک کرکے ایک مکمل آزاد اور خودمختیار ادارہ کی حیثیت دیکر اسکی اصلاح نہیں کی جاتی پنجاب کے اندر پولیس گردی اور پٹوار کلچر ختم ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہوتا رہیگا۔ تھانیدار کے اختیارات پر قدغن لگانا ضروری ہے ۔غلط FIRکے اندراج یا رشوت لیکر کسی بے گناہ کو گناہ گار کو بے گناہ قرار دینے جیسے جرائم میں جب تک سخت سے سخت سزا یا جزا کا نظام وضع نہیں کیاجاتا اس وقت تک سونیااور شہباز زندگیوں کے چراغ گل کرتے رہیں گے۔{jcomments on}
78