120

پاکستان کا اقبال اور اقبالؒ کا پاکستان/قاضی محمد عمران

دنیا کی اقوام کا وجود کہیں جغرافیائی، کہیں علاقائی، کہیں لسانی اور کہیں مذہبی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے، مگر پاکستان ایک نظریہ ہے۔یہ وہی نظریہ ہے جو تخلیق آدم کے وقت شیطان کی سرکشی کے سبب حق و باطل میں جدا راہیں واضح کرتا گیا۔ اسی نظریے نے معرکہ کربلا بپا کیا اور اسی نظریے کی بنیاد پر سلسلہ نقشبند کے معروف روحانی پیشوا اوردوسرے ہزارویں سال کے مجدد، شیخ احمد سرہندی ؒ نے ہندوستان کے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے خلاف جہاد کیا۔پاکستان کی بنیا د جن محرکات کے باعث ظہور پذیر ہوئی ان میں سب سے واضح یہی حق و باطل کی جداگانہ حیثیت اور واضح رستوں کا تعین تھا۔تاریخ پاکستا ن کی کتب میں پڑھایا جانیوالا دو قو می نظریہ دراصل حق کی واضح اور جداگانہ حیثیت متعین کرنیوالا اور اسے تمام آلائشوں سے پاک کرنیوالا نظریہ ہے۔تعمیر پاکستان اسی نظریے کی بنیاد پر ہے۔جس شخص کو اس نظریے کی تعلیم اور اس کی بنیاد پر جہد مسلسل کے ذریعے حصول ریاست کے عظیم کارنامے کے لیے منتخب کیا گیا اسے دنیا اقبالؒ کہتی ہے۔پاکستان کا اقبال ، اقبالؒ کے نظریات ، افکار، تخیلات اور ہدایات پر عمل کرنے کی صورت میں ہی قائم رہ سکتا ہے۔جب سے اس قوم نے اقبال ؒ کو نظر انداز کیا، اس قوم نے اپنا اقبال کھو دیا۔دنیا کی ہر زندہ قوم صرف ملی نغموں میں زندہ قوم کے دعووں سے زندہ نہیں ہوتی بلکہ اپنے ملک کے محسنوں، قائدین اور بانیوں کے افکار سے وابستگی اور ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے سے زندہ ہوتی ہے۔جو شخص اس مردہ قوم میں زندگی کی لہر دوڑا گیا، اس قوم نے اس شخص کی قدر وقیمت کا احساس باقی نہ رکھا۔پاکستان کی بقا ، سلامتی ، خوشحالی اور ترقی کا راز اقبالؒ کی تعلیمات میں ہے، مگر ہم کسی اور طرف اپنا قبلہ منتخب کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔اقبالؒ کا حدف آنیوالی نسل نو ہے، جس نے اقبالؒ کے خواب کے عین مطابق تعبیر بن کر دنیا ئے اسلام میں پاکستان کو اسلام کا مرکز اور قلعہ بنانا ہے۔پاکستان کے کیلینڈر میں جہاں دیگر اہم مواقع پر تعطیلات عام کا اعلان ان ایام کی اہمیت کے پیش نظر کر کے ان ایام کی افادیت نسل نو تک منتقل کی جاتی ہے وہاں یوم اقبالؒ یعنی اقبال کی ولادت کا دن سب سے اہم ہے ۔ اس دن کی تعطیل ہمارے بچوں اور جوانوں میں اقبال ؒ کا تعارف اور اس کی اہمیت واضح کرتی ہے۔ یہی احساس بن کر نسل نو کو اقبال ؒ کر قرب دیتی ہے ۔مگر آج ایوان اقتدار و اختیار پر براجمان مغرب ذدہ جمہوریت کے پروردہ نسل نو سے اقبال ؒ کو چھیننا چاہتے ہیں۔وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ اگر آج کے نوجوانوں نے اقبالؒ کی تعلیمات سے ناطہ جوڑ لیا تو نام نہاد جمہوری نظام کی بنیادیں نہ صرف کمزور پڑجائیں گی بلکہ نوجوان جمہوریت و آمریت کے ظالمانہ نظام کو ٹھکرا کر خلافت کے لیے جد و جہد کا آغاز کردیں گے۔موجودہ صاحبان اقتدار کی حوس مال و زر اور غاصبانہ اختیارات کی بقا اسی رواں نظام جمہور سے وابستہ ہے۔اقبالؒ کو پہلے نصاب تعلیم سے خارج کیا، پھر میڈیا سے اور اب ہر اس محرک کا خاتمہ یقینی بنایا جا رہا ہے جو نسل نو کو اقبال ؒ کے قریب کردے۔کیا واقعی اقبال ؒ اس قدر سحر انگیز ہے کہ صرف نظریات کی بنیاد پر قوم کی تقدیر بدل دے، تو اس امر کی صداقت ماضی قریب کے واقعات سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ افغانستان نے روس کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا، ایران میں انقلاب بپا ہوا اور اس سے قبل خود پاکستان کا وجو د تمام کلام اقبالؒ کی تاثیرات ہیں۔اقبال ؒ نے پاکستان کے صرف وجود کا ہی نظریہ پیش نہ کیا تھا بلکہ اس کے لیے مکمل نصاب عمل بھی ترتیب دیا تھا۔ اگر آج ہم اقبالؒ سے ناطہ نہ جوڑیں گے تو نہ صرف لاکھوں شہدا کے خون سے غداری ہوگی بلکہ بانیان پاکستان کے مقاصد سے بھی انحراف ہوگا۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ حکیم الامت بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ قومیت کے بجائے ملت کی بات کرتے ہیں۔ وہ ایسے حکیم ہیں جنہوں نے نہ صرف امت میں پیدا شدہ اپنے وقت کے امراض کی تشخیص کی بلکہ آنیوالے ادوار اور زمانوں میں امت جن امراض میں مبتلا ہوگی ان کی نشاندہی بھی کی، اور صرف نشاندہی ہی نہیں بلکہ ہر مرض کا علاج بھی تجویز کیا۔ یہ امراض چاہے مذہبی ہوں، سیاسی ہوں، معاشی ہوں یا ملی ہوں۔اقبال ؒ نے جمہوریت کی نفی کی اور اسے ظلم و جبر کا ایسا دیو قرار دیا ہے جو ظاہراً تو آزادی کی نیلم پر دکھتاہے مگر حقیقتاً کشت و خوں ریزی کا باعث بنے گا، اس کے مد مقابل اقبالؒ نے روحانی جمہوریت یعنی خلافتِ راشدہ کی طرز پر نظام حکومت کا نظریہ پیش کیا۔عصر رواں میں پاکستان کے اندرونی ، بیرونی مسائل کا حل اقبال ؒ کے افکار اور تعلیمات میں موجود ہے۔ضرورت اس امر کی ہے اقبالؒ کے نہ صرف کلام بلکہ آپ کے افکار، نظریات اور تعلیمات چاہے وہ شاعری یا نثر کی صورت میں ہوں انہیں زندہ کیا جائے یعنی نصاب تعلیم کے ذریعے، یوم اقبال ؒ پر حکومتی و عوامی سطح پر جلسے و جلوس کی شکل میں اور اس مقصد کے لیے علما، اساتذہ، طلبا، سیاسی و سماجی قائدین تمام مل کر تخلیق کے پاکستان کے مشن اور مقصد کو سمجھتے ہوئے ملت کی فلاح کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے, نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں