گذشتہ شمارہ میں اس بات پر اختتام ہوا تھا کہ پیپلز پارٹی تحصیل کلر سیداں کی قیادت مرکز و پنجاب سے مکمل لا تعلقی کے باوجود متحرک و منظم ہے ۔اس تنظیم و تحرک کے سر خیل ضلعی راہنما چوہدری ظہیر محمود، تحصیل صدر راجہ جاوید لنگڑیال ،جنرل سیکرٹری محمد اعجاز بٹ،بزرگ راہنما شریف بھٹو، فضل حسین،چوہدری زین العابدین عباس ،نصیر بھٹی،طاہر شاہ، اور نوید مغل سمیت دیگر افراد شامل ہیں۔اس بات کی حقانیت اس امر سے ثابت ہوتی ہے کہ حلقہ پی پی پانچ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر بیرسٹر ظفر اقبال چوہدری نے درجہ بالا احباب سے مشاورت کے بعد پیپلز پارٹی چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
2002کے انتخابات سے قبل کی حلقہ بندیوں کے مطابق سابق حلقہ پی پی 7 کے پیپلز پارٹی کے ووٹرز و سپورٹرز کے لئے اہم خبر یہ ہے کہ سابق ایم پی اے مرحوم چوہدری خالد محمود کے بھتیجے اور کہنہ مشق سیاستدان مرحوم چوہدری سلطان محمود کے بیٹے چوہدری ظہیر محمود مستقبل میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار متوقع ہیں۔چوہدری ظہیر محمود نے اس سلسلے میں پرانے اور گوشہ نشین سیاسی کارکنان سے روابط کی منظم مہم شروع کر دی ہے۔چوہدری ظہیر اس مہم میں پرائمری لیول کے کارکنا ن تک بھی رسائی حاصل کر رہے ہیں۔جس کے پیپلز پارٹی کے لئے یقیناًمثبت اثرات ہوں گے چاہئے انتخابات کے اکھاڑے میں کوئی بھی اترے۔راقم کا ذاتی خیال ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب اور راولپنڈی ڈویژن کو چاہئے کہ وہ صوبائی حلقہ پی پی 2کے لئے چوہدری ظہیر محمود اور پی پی5کے لئے تحصیل کلر سیداں کے جنرل سیکرٹری محمد اعجاز بٹ کو ابھی سے نامزد کر کے فری ہینڈ دے دیں۔ یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کو اس علاقہ میں کھویا ہوا مقام دوبارہ دلانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔محمد اعجاز بٹ سلجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاستدان ہیں اس قبل وہ یونین کونسل کلرسیداں کے ناظم بھی رہ چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے حوالے سے گذشتہ دنوں ایک اور خبر اخبار کی زینت بنی کہ سندھ کے کوٹہ سے سابق وفاقی وزیر حاجی نواز کھوکھر کے بیٹے مصطفٰے نواز کھوکھر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیئے جانے کے امکانات پر غور کیا جا رہا ہے۔اس بارے راقم کاخیال یہ ہے کہ اگر سیاسی پارٹیا ں ایک مخصوص طبقہ کو بالا بالا نوازنے کا سلسلہ ترک نہیں کرتیں توپھر جمہوریت کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ سکتا۔تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیئے کہ ایوان بالا و زیریں اور صوبائی ایوانوں کے ٹکٹ اس میکنزم کے تحت دیئے جائیں کہ جس کے ذریعے حقیقی سیاسی کارکنا ن قیادت کی صف میں آئیں۔اس طرح کارکنان کی حوصلہ افزائی ہو گی تو وہاں ایک جمہوری ثقافت بھی پروان چڑھے گی اور اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے ثمرات سے براہ راست عوام مستفید ہوں گے۔
جمہوری ثقافت کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات سے ایک امید بنی تھی کہ شاید اب دیگر پارٹیاں بھی با امر مجبوری یہ روش اختیا ر کریں اور یوں ایک جمہوری ثقافت اس معاشرہ کو نصیب ہو۔مگر بیرسٹر سلطان محمود سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے ساتھ ہی بطور صدر تحریک انصاف آزاد کشمیر نامزدگی نے ہمارے ’’جمہوری ثقافت کے سپنے‘‘کا خواب چکنا چور کردیا۔کیونکہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے خود ہی اپنے بنائے ہوئے اصول انتخاب برائے پارٹی عہدہ کو اپنے پاؤں میں روند ڈالا ۔اور اپنے لئے ’’مسٹر یوٹرن‘‘ کا لقب خود ہی اپنے لئے دوبارہ ’’فٹ‘‘ کر ڈالا۔تحریک انصاف کے لئے ایک اہم واقعہ ’’عآپ‘‘یعنی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کا بھارت کی ریاست دہلی کے ریاستی انتخابات میں ’’جھاڑو‘‘پھیرنا ہے۔عآپ نے ریاست کی 70میں سے 67نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق آپ کی اس جیت میں ایک عامل آپ کی گذشتہ انچاس روزہ حکومت ہے کہ جس میں عوام دہلی کو صاف پانی ملا اور بجلی کے بل بھی بروقت ملے جبکہ پولیس کا قبلہ بھی ان انچاس دنوں میں کافی درست رہا۔دوسرا عامل عاجزی اور سادگی ہے کہ جو ارندوکیجریوال کا طرہ امتیازرہاہے۔تیسرا عامل یہ بیان کیا گیا ہے کہ عآپ نے عوام کے نبیادی مسائل پر انتخابی مہم کو چلایااور یوں تاریخی کامیابی حاصل کی۔عمران خان کو چاہئے کہ دھاندلی کیساتھ ساتھ اپنی دوسری بنیادی ذمہ داریوں پر توجہ دیں۔بالخصوص خیبر پختونخواہ میں کچھ ایسا کر گزریں کہ عوام آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کو ہی اپنا ’’نجات دہندہ ‘‘ متصور کریں۔لیکن عمران خان کی موجودہ حکمت عملی سے اس امر کا ہونا دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
الیکشن کمشن کی جانب سے رواں برس کے نومبر میں پنجاب کے لئے بلدیاتی انتخابات کا اعلان مسلم لیگ ن کے لئے کوئی اچھا پیغام نہیں لایا۔ اول تو عوام کے ذہن میں یہ ابہام بدستور موجود ہے کہ مسلم لیگ ن جو دوبار انتخابات کا شیڈول دینے کے باوجود انتخابات ملتوی کر چکی ہے وہ اب کی با ر بھی کوئی نہ کوئی عذر تراش کے پھر سے بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کروانے کی کوشش کرے گی۔اس ابہام کے حق میں بہت سے قرائن جاتے ہیں۔ بالفرض محالہ مسلم لیگ ن کو لا محالہ انتخابات کا میدان سجانا پرھ گیا تو پھر مسلم لیگ ن کے اندر بہت سے مسائل جنم لیں گے کیونکہ یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اکثر یونین کونسلز میں مسلم لیگ ن کے دو یا دو سے زائد پینلز پہلے سے موجود ہیں جو مسلم لیگ ن کی قیادت کیلئے کڑا امتحان ثابت ہوں گے۔اس علاقہ میں ویسے ہی کارکنان میں واضع تقسیم پائی جاتی ہے کیونکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور چیئرمین ایجوکیشن کمشن پنجاب قمر السلام راجہ کے درمیان معاملات درست نہ ہیں جس کے واضع ثبوت قمرالسلام راجہ کے ذاتی ووٹ بینک والے علاقوں میں ضروری ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا ہے۔اس صورتحال میں قمرالاسلام راجہ کے ذاتی ووٹ بینک کے علاقہ میں دوسری جماعتیں سرنگیں لگا رہی ہیں آمدہ ماہ میں ان سرنگوں کے دھانے کھلنے کے اشارے مل رہے ہیں۔دوسری جانب اگر مسلم لیگ ن کی تنظیمی صورتحال پر بات نہ کرنا ہی مناسب ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن میں ’’تنظیم ‘‘ نام کی کوئی ’’شے ‘‘ موجود نہیں ہے۔لہذا ’’عدم‘‘ کے متعلق باتیں راقم کے لئے زینت قرطاس کرنا ناممکن نہیں تو از حد مشکل ضرور ہے۔{jcomments on}
131