ہندوؤں کو متعصب کہنا غلط ہے کیونکہ ہندو متعصب ہی نہیں ایک انتہائی متعصب قوم ہے ، میں ایک پاکستانی ہوں اس لیے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں پاکستان کے ساتھ بھارت کی روایتی دشمنی کی وجہ سے کہ رہا ہوں کیونکہ یہ بات تو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ ہندو ایک متعصب ترین قوم ہے ۔ ہندو اپنے علاوہ سب کو ناپاک سمجھتے ہیں ، ان کامذہبی تعصب انتہا کو پہنچا ہوا ہے وہ اس تعصب کی آگ کو بجھانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ، وہ مذہبی تعصب کی وجہ سے اکثر انسانیت سے بھی گر جاتی ہیں اور انتہائی غیر انسانی حرکات پر اتر آتے ہیں۔ ان کے مذہب ہیں گائے مقدس جانور ہے جس کا کھانا ان کے نزدیک حرام ہے وہ خود گائے نہیں کھاتے تو کسی اور مذہب کے ماننے والے جن کے نزدیک گائے کا گوشت حلال ہے انہیں بھی گائے نہیں ذبح کرنے دیتے اور اگر کوئی مسلمان کر لے اور انہیں اس کی خبر ہو جائے تو اپنے زیر تسلط مسلمانوں کو اس نہ کیے گئے جرم کی انتہائی درد ناک سزائیں دیتے ہیں ۔ اب ہمارے نزدیک سؤر کا گوشت کھانا حرام ہے اور عیسائیوں کے نزدیک حلال ہے تو کیا ہم ان سے جھگڑنا شروع کر دیں کہ ہم اسے نہیں کھاتے تو تم بھی نہ کھاؤ، ہو ایک کا اپنا مذہب ہے ، اپنی سوچ ہے ، اپنی ذہنیت ہے مگر ہندو اپنے مذہب پر زبردستی عمل کراتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں رہنے والی تمام غیر ہندو اقوام ہندوؤں سے بیزار ہیں ، وہ ان کے تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے خود کو وہاں غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر کسی انتہا پسند ہندو گروہ نے انہیں کوئی بہانہ بنا کر نقصان پہنچایا تو انہیں حکومت کی بھی مکمل سرپرستی حاصل ہوگی جس کی وجہ سے انہیں انصاف ملنا بھی نا ممکن ہے ۔ اسی لیے ہندوستان میں ہندوؤں اور بھارتی حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے بہت سی آزادی کی تحاریک بھی چل رہی ہیں ، جن میں اکثر تحریکیں غیر مسلموں کی ہیں جن میں سکھوں کی تحریک خالصتان خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ، اور اب سب تحریکوں سے بڑی تحریک کشمیر میں مسلمانوں کی ہے جو متعصب بھارتی حکمرانوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ہندوؤں نے اپنے اس تعصب کو ہر میدان میں پھیلایا ، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ہندوؤں کی تنگ نظری کی آمیزش نہ ہو، خواہ سیاست ہو یا ثقافت، کھیل ہو یافنکوئی شعبہ ہندوؤں کے تعصب اور تنگ نظری سے پاک نہیں ہے۔ کبھی اپنے اس تعصب سے مجبور ہو کر وہ کھیلوں میں شرکت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ، کبھی پاکستانی فنکاروں کو آنکھیں دکھانے لگتے ہیں ، پہلے ان کی حکومت فنکاروں کو خود ہی ویزے جاری کرتی ہے ، ان کے فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد ان کا استقبال کرتے ہیں پھر ذرا سی پاکستان کے ساتھ نوک جھوک ہو جائے تو انہیں ملک چھوڑ دینے کے لیے دھمکیاں دینے لگتے ہیں، ان کا یہ طرز عمل کوئی نیا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے ہی وہ ایسا کرتے آئے ہیں اور پہلے بھی کئی بار پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ایسا رویہ اپنا چکے ہیں مگر ہمارے فنکار ان کی فلم انڈسٹری کی چمک دھمک کو دیکھتے ہیں تو ان کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے ۔ جو فنکار ، اداکار ، گلوکار یا ماڈل پاکستان میں ذرا سا نام کما لے تو وہ بھارت جانے کے لیے پر تولنے لگتا ہے اور بالی وڈ میں انٹری کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے ۔ جب بالی وڈ میں انٹری مل جائے تو اگلے دن اخبارات میں شوبز کے صفحے پر بڑے حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں فنکار یا فنکارہ کو بالی وڈ میں انٹری مل گئی ۔وہ انٹری لے کربڑی خوشی سے اپنے ملک کو چھوڑ کر چلے تو جاتے ہیں مگر جب بھارت کی پاکستان کے ساتھ ذرا سے تعلقات خراب ہو جائیں تو انہیں دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں چونکہ ان کے ساتھ پاکستانی فنکار کا لفظ جڑا ہوتا ہے اس لیے یہ دھمکیاں پوری قوم کے لیے پریشانی کا باعث ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اس لیے ان کے ذاتی معاملے میں دخل نہیں دینا چاہیے اگر ان میں قومی حمیت کا جذبہ نہیں ہے توان میں یہ جذبہ زبردستی تو نہیں ڈالا جا سکتالہٰذا حکومت یا ریاست کو ان پر کوئی پابندی نہیں لگانی چاہیے ، ان کی یہ بات تو درست ہے کہ اگر کسی میں قومی حمیت کا جذبہ نہ ہو تو اس میں زبردستی یہ جذبہ نہیں ڈالا جا سکتا مگر یہ بات قابلِ اعتراض ہے کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ یہ ان کا ذاتی معاملہ نہیں ہے یہ پورے ملک اور پوری قوم کا مسئلہ ہے ، وہ ذاتی طور پر چلے تو جاتے ہیں مگر جب انہیں وہاں سے دھتکارا جاتا ہے اور ملک چھوڑنے کے لیے دھمکیاں دی جاتی ہیں تو پوری قوم کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ، آپ نے دیکھا ہو گا کہ حالیہ دنوں بھی جب ان فنکاروں کو بھارت چھوڑنے کا کہا جا رہا ہے تو پوری قوم کے سر شرم سے جھک رہے ہیں اس لیے کہ ان کے نام کے ساتھ پاکستان کی نسبت جڑی ہوئی ہے ۔ ہمارے فنکار اپنی دولت اور شہرت کے لیے ملک تو چھوڑ جاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ اس سے ملک کا کتنا نقصان ہے ، انہوں نے جو کام وہاں کرناہے وہ یہاں بھی تو ہو سکتا ہے ، یہاں اپنی فلم انڈسٹری کو ترقی کیوں نہیں دیتے ، اگر حکومت اس میں آپ کی مدد نہیں کرتی تو حکومت سے اپنا حق وصول کریں ، امید ہے کہ آپ کر کے دکھائیں تو حکومت آپ کی ہر ممکن مدد کرے گی اگر نہیں کرتی تو اس کے بھی بہت سے طریقے ہیں کہ حکومت سے اپنا حق کیسے لیا جائے۔ اس بات سے قطع نظر کہ شریعت میں فلم سازی یا فلم بینی کے کیا احکامات ہیں کیوں کہ یہاں بات صرف قومی حمیت کی ہو رہی ہے تو اس لیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ بجائے اس کے کہ دوسروں کی فلم انڈسٹریز کو ترقی دیں آپ اپنے ملک میں ہی تھوڑی سی محنت کر کے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے ملک کی فلم انڈسٹری کو پروان چڑھائیں تا کہ کسی فنکار کو بھارت نہ جاناپڑے اور اس قسم کی ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑے جو پوری قوم کے لیے شرمندگی کا باعث ہو۔{jcomments on}
110