ہمارے ملک کی ایک روایت ہے اور یہ روایت بہت قدیم ہے اور یہ روایت جتنی قدیم ہے اتنی ہی بری بھی ہے وہ روایت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر مسئلہ سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔کوئی بھی ملکی مسئلہ ہو،کوئی ترقیاتی منصوبہ ہو ، حکومت کی طرف سے عوام کو یا کسی خاص طبقے کے لیے کوئی پیکج دیا جا رہا ہو، کسی پر کرپشن کا الزام لگ جائے، منی لانڈرنگ کا کیس ہو ،کسی ادارے کے سربراہ کا انتخاب کرنا ہو،غیر ملکی امداد ہو یا کسی اسلامی ملک کی حمایت کرنی ہووغیرہ غرض کچھ بھی ہو جائے ذرا ذرا سی بات پر سیاستدان اپنی سیاست کی دکان چمانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور خوب ہلاگلہ کیا جاتا ہے پورے ملک میں اسی مسئلے پر شور شرابا ہوتا ہے۔چھوٹے سے مسئلے کو اس قدر بڑھا دیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ اس سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔
اب موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاناما لیکس کو ہی دیکھ لیں پورے ملک میں آف شور کمپنیوں پر اتنا شور مچا ہوا ہے کہ باقی تمام مسائل پر ہونے والا شور آف شور میں ہی دب کر رہ گیا ہے ۔ہر آدمی کی زبان پر آف شور کا ہی شور ہے،ٹی وی چلائیں تو بھی آف شور کا ہی شور ، ریڈیو لگائیں تو بھی آف شور کا ہی شور ،اخبار اٹھائیں تو بھی آف شور کا ہی شور ،کسی سیاسی پارٹی کا جلسہ ہو تو بھی آف شور کا ہی شور ،پارلیمنٹ کا اجلاس ہو تو بھی آف شور کا ہی شور سنائی دیتا ہے۔ آف شور کا شور سن سن کر عوام تنگ آ گئے ہیں ملک میں کوئی دوسری بات ہی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ تو عدالتوں اور احتساب کرنے والے اداروں نے حل کرنا تھا لیکن سیاستدانوں نے ایسے لاٹھیاں اٹھا رکھی ہیں جیسے اس کے مجرموں کو گرفتار کرنا اور سزائیں دینا ان ہی کا کام ہے ،عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔ملک کے دیگر ہزاروں مسائل کو پسِ پشت ڈال کر پارلیمنٹ کے کئی اجلاس صرف پاناما لیکس اور آف شور کمپنیوں کے متعلق ہوئے۔ بجلی کا بحران، گیس کی لوڈ شیڈنگ،تعلیم کے مسائل،غربت ،دہشتگردی وغیرہ یہ سب مسائل جوں کے توں پڑے ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں کو وقت گزاری کے لیے پاناما لیکس مل گئیں اور وہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پھر اس پر مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سارے شور کا مرکز صرف ایک ہی شخص ہے اور وہ وزیراعظم نوازشریف ہیں۔پیپلزپارٹی ہو یا تحریک انصاف ،متحدہ اپوزیشن ہو یا متفرق جماعتیں تمام کے الزامات اور تنقید صرف اور صرف وزیراعظم پر ہی ہے جیسے پاناما پیپرز میں صرف وزیراعظم کا ہی نام آیا ہے باقی سب کے نام بطورِمذاق اس میں شامل تھے۔حیرت کی بات تو ہے کہ جن کے اپنے نام اس میں آئے ہیں اورجو لوگ بذاتِ خود آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں وہ بھی وزیراعظم پر اعتراضات کر رہے ہیں حالانکہ وزیراعظم کا اپنا نام تو پاناما پیپرز میں شامل ہی نہیں ہے اگر نام آیا بھی ہے تو وزیر اعظم کے بیٹوں یا بیٹی کا آیا ہے وزیر اعظم تو اس کے ذمہ دار نہیں ہیں،نہ ہی وزیراعظم کے بیٹے اتنے چھوٹے اور نابالغ ہیں جو ان سے اجازت طلب کر کے کام کریں گے اوروزیراعظم انہیں انگلی پکڑ کر چلائیں گے وہ ان کی رہنمائی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے،ایسا ہرگز نہیں ہے وہ بالغ ہیں آزاد اور خود مختار ہیں اپنی مرضی کے مالک ہیں انہوں نے اگر کوئی غلطی کی بھی ہو تو ان پر وزیراعظم کو کیوں اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں، ہر سیاسی جلسے میں،ہر انٹرویو میں جہاں دیکھو تو وزیراعظم کے خاندان کے خلاف ہی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرنے والے بھی وہ لوگ ہیں جن کے اپنے نام پاناما پیپرز امیں آئے ہیں اور بذاتِ خود آف شورکمپنیوں کے مالک ہیں اوراس کا اعتراف بھی کر چکے ہیں صرف اپنے گناہوں کوچھپانے کے لیے اس شخص کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جس کا اپنا نام ہی نہیں آیا۔اپوزیشن والے جنہوں نے وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنایاہوا ہے کیا وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ پاناما پیپرز میں اور بھی کئی سیاستدانوں کے نام شامل ہیں ۔وزیراعظم سے پہلے 7اور پھر 70سوال تو بڑے شوق سے کرڈالے لیکن اپنے ساتھ بیٹھ کروزیراعظم پر تنقید کرنے والے دوسری بڑی پارٹی کے لیڈر سے کبھی ایک سوا ل بھی کیا ہے۔وزیراعظم سے تو 70سوال کر دیے لیکن دیگر رہنماؤں سے ایک سوال ہی کر لیں کہ وزیراعظم کے خاندان کی آف شورکمپنیوں پر تو بہت شور مچاتے ہوآپ کی اپنی آف شور اکمپنیاں کس کھاتے میں جائیں گیں۔آپ کی آف شور کمپنیاں جائز ہیں تو وزیراعظم کے خاندان کی آف شور کمپنیاں کیوں ناجائز ہیں۔
اس سارے پروپیگنڈے کا فائدہ براہ راست امریکہ اور بھارت کو ہو رہا ہے کیوں کہ ایک تحقیق کے مطابق جتنے ممالک کے وزراء کے نام پاناما پیپرز میں آئے وہ سب امریکہ کی نظر میں کھٹکتے ہیں اور وہ ان کی حکومتوں کو گرانا چاہتا ہے۔ ان ممالک میں انتشار پھیلا کر انہیں کمزور کرنا چاہتا ہے خاص طور پر پاکستان میں فوج کو حکومت میں لانے کے لیے یہ سب چال چلی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور بھارت جانتے ہیں کہ پاک چائنہ اقتصادی راہ داری اور گوادر پورٹ کا منصوبہ اگر کامیاب ہو گیا تو اس سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہو گا اور پاکستان کس قدر مستحکم ہو جائے گا۔اسی لیے یہ منصوبہ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا لہٰذا وہ ان منصوبوں کو روکنے کے لیے یہ چالیں چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اگر پاناما لیکس کو دیکھا جائے تو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھاکیونکہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہاتھا کہ اگر نوازشریف تقریر نہ کرتے تو یہ مسئلہ اتنا نہ بڑھتا انہوں نے تقریر سے پہلے مشاورت نہیں کی۔اب مولانا فضل الرحمٰن ایسے شخص تو نہیں ہیں کہ ان کی بات کو اہمیت نہ دی جائے ،مولانا پاکستان کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مانے ہوئے سیاستدان ہیں لہٰذا ان کی کوئی بات بے معنی نہیں ہوتی ۔اس سے یہ پتا چلا کہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا کہ پورے ملک کی سیاست کا محوربن جاتا اور باقی تمام مسائلکو چھوڑ کر صرف اسی پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کی جائیں اور وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ کیاجائے۔ابھی بھی ساری قوم کو متحد ہو کر بیرونی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے تمام مسائل کو مل جل کر حل کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے اہم منصونوں کو پایا تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں۔