طاہر یاسین طاہر
ٹرمپ کو امریکہ میں ہی سنجیدہ نہیں لیا جاتا ہے۔اس کی وجہ موصوف کا اندازِ فکر اورلا ابالی طبیعت ہے۔ ہمیں مگر اس سے سروکار نہیں۔ ہمیں اس کے ہر بیان اور بالخصوص تازہ دھمکی کو سنجیدہ بھی لینا ہے،اس کا جواب بھی دینا ہے اور آئندہ کی حکمت عملی بھی ترتیب دینی ہے۔تعصب اور عقیدت ہمیشہ تجزیہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔افلاطون نے کہا تھا کہ رائے تنگ نظری اور تعصب کے سوا کچھ بھی نہیں۔جب روس کے خلاف افغانوں کا نام نہاد جہاد جاری تھا،تو اس وقت امریکہ کو پاکستان کا کردار نہ صرف پسند تھا بلکہ دنیا بھر سے شدت پسند جہادی اکٹھے کرنے اور ان کی مالی و عسکری مدد کرنے میں امریکہ سب سے آگے تھا۔غیر جانبدار تجزیہ کار اس جہاد کو جہاد بالاڈالر بھی کہتے ہیں۔اس وقت امریکہ کا ہدف روس کا اشتراکی نظام تھا۔ امریکہ اپنا ایک بندہ مروائے بغیر روس کو پاکستان اور کرائے کے افغانوں کے ذریعے توڑنے میں کامیاب رہا۔اب مگر امریکہ کا ہدف کچھ اور ہے۔نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا۔کچھ عاقبت نا اندیش کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھا،کیوں؟ اس حوالے سے وہ کوئی دلیل نہیں دے پاتے سوائے اس کے کہ، امریکہ افغانستان میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوا ہے۔میں مگر سمجھتا ہوں کہ یہ جنگ پاکستان کی اپنی بقا اور سالمیت کی جنگ ہے۔دنیا میں قیام امن کے لیے بھلا پاکستان اس جنگ میں کیوں شریک نہ ہوتا؟ہاں مگر اس جنگ میں امریکہ کو پاکستان سے ہمیشہ شکوہ ہی رہا۔کبھی تو امریکہ پاکستان پر ڈبل سٹنڈرڈ کا الزام لگاتا ہے تو کبھی افغان طالبان کی خفیہ مدد کا۔دنیا کے عدل پسند مگر جانتے ہیں کہ اگر پاکستان اس جنگ میں مریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی نہ بنتا تو دہشت گرد خطے میں امریکی مفادات کو اڑا چکے ہوتے۔پاکستان نے اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد اپنے شہری قربان کیے ہیں،پانچ سے سات ہزار کے قریب فوجی جوان اور کئی افسران اس راہ میں شہید ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا سماجی ڈھانچہ خود کش حملوں سے بری طرح متاثر ہوا۔ حتی کہ سیکیورٹی اداروں کے ٹریننگ سینٹرز، چیک پوسٹوں اور سکولوں تک کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا،مگر پاکستانی عوام اور سیکیورٹی فورسز نے ہمت نہیں ہاری اور بالاآخر دہشت گردوں کے خلاف ضربِ عضب کی شکل میں کامیاب آپریشن کر کے انھیں نہ صرف ختم کیا بلکہ ان کے سلیپرز سیل تک کو ٹار گٹ کیا۔اگرچہ اکا دکا سلیپرز سیل کہیں نہ کہیں موجود ہیں،جو گاہے گاہے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں مگر دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں نے جو قہر آج سے چار ،پانچ سال پہلے مچایا ہوا تھا، وہ ختم ہو چکا ہے۔بلا تفریق اچھے برے طالبان کے خلاف آپریشن ہوا اور انھیں انجام تک پہنچایا گیا۔امریکہ جس بیانیے کو دہرا رہا ہے وہ در اصل حقانی نیٹ ورک ہے۔جبکہ فورسز نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی آپریشن کیا۔ٹرمپ کے بیان سے ایک دو روز قبل امریکی آفیشلز کو قبائلی علاقوں کا دورہ بھی کرایا گیا اور انھیں وہ علاقے دکھائے گئے جو پاک فوج نے دہشت گردوں سے کلیئر کرائے ہیں۔ حال ہی میں راجگال کا علاقہ بھی دہشت گردوں سے کلیئر کرا لیا گیا ہے۔یہ جنگ جاری ہے اور انشا اللہ مکمل فتح تک جاری رہے گی۔یہ پاکستان کی سالمیت اور بقا کا مسئلہ ہے امریکہ کی خوشنودی نہیں۔ پھر امریکہ کیا چاہتا ہے؟ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان مذاکرات کی میز پر لائے؟ مگر کیوں اور کیسے؟اب تو پاکستان کینمک خوار حکمت یار، کا گروہ بھی پاکستان مخالف بیانات داغ رہا ہے۔افغانستان میں امن ،امریکہ سے زیادہ پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔امریکہ ان حقائق کو کیوں نہیں سمجھنا چاہتا جنھیں زمینی حقائق کہا جاتا ہے۔بھارت ،داعش اور امریکہ مل کر افغانستان اور خطے میں امن کی راہ کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔یہ امریکہ ہی ہے جو داعش کو افغانستان میں مضبوط کر رہا ہے۔بھارت اس معاملے میں معاون ہے۔داعش کو پاکستان کے مغربی بارڈر پر مضبوط کرنے کا مقصد کیا ہے؟ یہی کہ پاکستان، سی پیک اور ایران کو نشانے پر رکھ لیا جائے۔کیا یہ سچ نہیں کہ داعش کی تخلیق امریکہ نے اسرائیل اور چند خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر کی ہے۔اس کا مطلب یہی ہے نا کہ امریکہ داعش اور بھارت کے ذریعے چین ،روس،ایران اور پاکستان کے اس بلاک کو کمزور کرنا چاہتا ہے جو خطے میں ایک متوازی امریکی بلاک کے طور پر سامنے آ چکا ہے۔امریکہ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرنے کے بجائے یہ دیکھے کہ پاکستان نے اس جنگ میں اب تک کتنی قربانیاں دیں اور کس قدر معاشی نقصان اٹھایا۔ کیا امریکہ یا اس کے کسی بھی دوسرے یورپی اتحادی نے ان قربانیوں کا عشر عشیر بھی دیا؟ہاں البتہ آرمی چیف نے واضح کر دیا کہ امریکہ اپنے پیسے اور سامان اپنے پاس رکھے۔ البتہ ہم پر اعتماد کرے، چین، پاکستان کی جانب سے آفیشل بیان آنے سے پہلے ہی پاکستان کے حق میں یہ بیان جاری کر چکا ہے کہ دنیا پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے۔چیئر مین سینٹ کا بیان بھی قابل تعریف ہے۔وزیر اعظم صاحب اور وزیر خارجہ کیبیان کا انتظار ہے ابھی۔ اس موقع پرمگر ہمارا ردعمل بڑا واضح اور شفاف ہونے کے ساتھ ساتھ ،نئی خارجہ پالیسی ظاہر کرنے کا بھی ہونا چاہیے۔اتنا کافی نہیں کہ ٹرمپ کے منہ میں مودی کی زبان ہے۔ ہاں ایسا ہے مگر ہمیں بحثیت ایک ملک کے اپنی پالیسی نئی بدلتی علاقائی صورتحال کے تناظر میں بنانی اور دیکھنی ہو گی۔علاقائی صورتحال کیا ہے؟خطے میں عسکری اور معاشی انگڑائیوں میں پاکستان و چین اور روس کا کردار مرکزی ہو گا۔یہ کھٹک امریکہ کو بھی ہے اور بھارت کو بھی۔ امریکہ خطے،بالخصوص افغانستان میں بھارتی کردار کو بڑھانا چاہتا ہے،اس کام کے لیے ٹرمپ ،کابل اور دہلی مل کر پاکستان پر الزام تراشی کریں گے،ہمیں مگر ڈٹ کر رہنا ہے۔ نئی پالیسی اور نئے جہان تخلیق کرنے ہیں۔ یہی زندہ قوموں کی نشانی ہے۔پاکستان کوئی کمزور ریاست نہیں کہ امریکہ یکا یک چڑھ دوڑے گا ،البتہ میڈیا اور سوشل میڈیا پہ ایک اعصابی جنگ شروع کر دی گئی ہے۔{jcomments on}
106