وفاقی ضلع اسلام آباد میں 2003 ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کو دو NA-48,NA-49 میں منقسم کیا گیا ،ایک اربن (شہری)حلقہ دوسرا رورل (دیہی ) حلقہ۔اس سے قبل ایک ہی قومی اسمبلی کی نشست این اے 36 تھی جس پر مقامی سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھر،سید ظفر علی شاہ بطور عوامی نمائندہ منتخب ہوئے مگر اپنے حلقہ عوام کی ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات پینے کے صاف پانی،بجلی کی ترسیل،سوئی گیس کی فراہمی،علاج معالجے کی بنیادی سہولیات سے روگردانی،تعلیم وتربیت کے لیے سرکاری اداروں پرعدم نظر ثانی کرنا،اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کے روزگار پر عدم توجہی،بطور عوامی نمائندہ قومی اسمبلی میں مقامیوں کے لیے سرکاری اداروں میں کوٹہ سسٹم مختص کروانے کے لیے کوئی اقدام نہ کرنااختیار ات ہونے کے باوجودبھی فقط اپنے من پسندوں کو نوازنے جیسے شعار اپنائے رکھاجس کا صلہ حلقہ عوام نے یہ دیا کہ تیس برسوں میں ہونے والے انتخابات میں کسی نے ان کے حق میں اکثریتی ووٹ نہ دیئے سوائے ان کے جنہوں نے اپنے ذاتی مالی وسیاسی فوائد حاصل کیے ۔2003 ء کے عام انتخاب میں وفاقی دیہی حلقہ میں مشرف کے دور حکومت میں دیہی حلقہN A-49 سے سید نئیر حسین بخاری پی پی پی کے ٹکٹ سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو شاہ صاحب نے بھی وہی رنگ اپنایا جو ان سے قبل سرکاری فنڈز بطور ممبر قومی اسمبلی ریلیز ہوئے وہ بھی من پسندوں کی نظر ہوگئے اور 2008ء کے انتخاب میں جب پی پی پی کی وفاقی حکومت بنی تو موصوف شاہ اپنے حلقہ میں کامیاب نہ ہو سکے اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے چوں کہ حکومت پیپلز پارٹی کی تھی اور مسلم لیگ (نون)اپوزیشن میں تھی تو حلقہ عوام نے اپنے بنیادی مسائل کو اس غرض سے چھوڑے رکھا کہ ہمارا نمائندہ اپوزیشن جماعت میں ترقیاتی کاموں کا باب بند رہا الغرض سینیٹ کی نشست سے سابق صدر آصف علی زرداری نے سید نئیر حسین کی پارٹی سے وفاداری کرنے کے عوض شاہ صاحب کو پہلے سینیٹر منتخب کروا کر چئیرمین سینیٹ کی سیٹ پر بٹھا دیا ،شاہ صاحب نے اپنی ماضی کی غلطیوں کو بھلانے اور حلقہ عوام کو اعتماد میں لینے کی غرض سے آٹے میں نمک کے برابر ترقیاتی کام کروا ئے ڈالے ان میں سب سے بڑے منصوبے سوئی گیس کی فراہمی اور ڈگری کالج فار بوائز سہالہ تھے ،اور بے شمار چھوٹے بڑے ترقیاتی منصوبہ جات کے پی سی ون منظور کروائے جن پر بیوروکریسی ،لوکل گورنمنٹ ارباب اختیار ات نے ٹال مٹول کیا جو اب موجودہ بلدیاتی نمائندوں کے ناموں سے سنگ بنیاد رکھنے میں کام آرہے ہیں ۔2008 ء کے انتخابات کا ٹینور مکمل ہونے سے قبل ڈاکٹر طارق فضل چوہدری جو اپوزیشن جماعت کا حصہ تھے مگر پنجاب حکومت نون لیگ کی تھی اس لیے وہ ممبرصوبائی اسمبلی ملک غلام رضا کے نام پر پنجاب حکومت سے ساڑھے چوالیس کروڑ کی میگا منصوبہ کی گرانٹ آڑی سیداں تا جی ٹی روڈسواں کیمپ جو راولپنڈی کی تحصیل اور کہوٹہ کے درمیان واقع ہے جس پر گذشتہ بیس برسوں سے کوئی کام نہ ہوا تھا لی جو اس وقت دیہی حلقہ کا بڑا مسئلہ تھا مختصر یہ کہ 2013 ء کی الیکشن مہم سے قبل پنجاب ہائی وے اتھارٹی نے دن رات کام کیاوزیر اعلی پنجا ب میاں شہباز شریف نے روڈ کا افتتاح کیا جو سیاسی حوالہ سے پہلا ڈاکٹر صاحب کے لیے نیک شگون ثابت ہوا جس سے عوامی دلجوئی ہوئی بعدازاں الیکشن مہم میں دروالہ ڈاکٹر صاحب کے عوامی جلسہ میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے خطاب نے سونے پر سواگہ کی ضرب المثل ثابت ہوئی جس کے نتیجہ میں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے دوران الیکشن مہم جلسہ گاہوں میں خطابات میں ان کا روایتی سیاست دانوں والا کلیہ رہا کہ منتخب ہو کر عوام کے کام ان کی دہلیز پر ہوں گے ،مگر کاش ایسا ہوتا ،ڈاکٹر صاحب نے منتخب ہونے کے بعد حلقہ عوام کو اعتماد میں لیا اور نہ ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وفاقی حلقہ دیہی مسائلستان بنتا گیاچوں کہ وفاق ہونے کی وجہ سے چاروں صوبوں کے سیاست دانوں ،بیوروکریٹس،قانون نافذ کرنے والے ارباب اختیار ،لوکل گورنمنٹ افسران نے اپنی اپنی ذاتی طمع نفسانی، اختیارات کا اس طرح استعمال کیا جیسے وفاقی ضلع کی مقامی آبادیوں کے رہائشی ان کی لونڈی ہوں ،اربن حلقہ میں وزراء،مشاہیر اور دیگر عہدیداران کے اثر رسوخ کے باعث نیز شہری حلقہ کو وفاقی ضلع کا خاص حصہ سمجھا گیا اور سارا زور دیہی حلقہ عوام پر پڑا رہی سہی کسر عوامی نمائندوں نے نکال دی اب صورت احوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری جو گذشتہ چند مہینوں سے وزیرمملکت کیپیٹل ایڈمنسٹریشن ڈیویلپمنٹ ( کیڈ) لگے ہوئے ہیں جن کے زیر انتظام وفاقی ضلعی انتظامیہ(تعلیمی و تربیتی ادرارے ) بشمول سی ڈی اے آتے ہیں،نے کوئی بھی اپنی زیر نظامت منسٹری سے اپنے دیہی حلقہ کے بنیادی مسائل یعنی چاروں رورل سیکٹرز کے تعلیمی اداروں کو اپ گریڈیشن نہ کیا صرف و صرف ان کی اربن سیکٹرز جہاں بیوروکریٹس ،وزراء ،مشاہیر کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ترجیح بنیادوں پر فنڈنگ کر رہے ہیں ،ان کی حلقہ عوام کے بیروز گار اعلی تعلیم یافتہ مردو خواتین ان پر نظر جمائے ہوئے ہیں کہ فیڈرل ڈائریکٹوریٹ میں کم ازکم دوہزار منظور شدہ اساتذہ ونان ٹیچنگ سٹاف کی پوسٹیں خالی ہیں جن پر مقامیوں کو کوئی سہولت نہیں دی جارہی ،سیاسی حوالہ سے بھی ان کی ساکھ ان کے گذشتہ ووٹر کی نظر میں گر رہی ہے ،جس کا عملی ثبوت حالیہ بلدیاتی انتخاب اور بعد ازاں وزارت ملنے کے عوام سے بے رخی کا رویہ اپنانے کی وجہ سے عوامی سیاست کا ماحول خاصہ تغیروتبدل میں ہے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ 2018 ء کے انتخابات میں ضرورتبدیلی آئے گی۔دوسری طرف تحریک انصاف کے سینئر رہنماء چوہدری الیاس مہر بان بھی وفاقی دیہی حلقہ عوام کی کسم پرسی کی حالت کو دیکھتے ہوئے زیادہ مہربان نظر آتے ہیں اور اگلے الیکشن کی مکمل تیاری میں ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کی ہوئی ہیں جو تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں وفاقی ضلع میں صدر کی نشست کے اکیلے بلا مقابلہ امیدوار ہیں بھی دیہی حلقہ عوام میں مشہور و مقبول ہو رہے ہیں ،پی پی پی کی طرف سے سابق نامزد امیدوار برائے ممبر قومی اسمبلی مصطفی نواز کھوکھر بھی چوتھی مرتبہ میدان میں اترنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب باقی ماندہ عرصہ جو ٹینور مکمل کرنے میں رہ گیا ہے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائیں گےْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ُ ُٰ{jcomments on}
108