بلا شبہ پنجاب کے دیگر علاقوں کی نسبت ضلع راولپنڈی کی کلرسیداں میں جرائم کی شرح بہت کم ہے اور یہ علاقہ باقی ماندہ تحصیلوں کی نسبت کافی پر امن ہے یہاں پر جرائم کی شرح بالحضوص قتل ڈکیتی جیسے بڑے جرائم بہت تھوڑی تعداد میں واقع ہو رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ یہاں کی پولیس بہت زیادہ اچھی ہے محکمہ پولیس کے کارنامے تو آئے روز اخبار کی زینت بنے رہتے ہیں اور بعض دفعہ ایسے ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ دل کا نپ اٹھتا ہے ایسے ہی حالات تھانہ کلرسیداں میں بھی پیدا ہو رہے ہیں جسکی وجہ سے یہ تھانہ بھی بہت بد نام ہو چکا ہیں اور ایسے درد ناک قصے سننے کو ملتے ہیں جن کی وجہ سے تحصیل کلرسیداں بری طرح بد نام ہو رہی ہے چند دن پہلے کنوہا میں جو ظلم ہوا پولیس نے جس روایتی غفلت کا مظاہرہ کیا وہ پوری تحصیل کے سیاسی قائدین اور خصوصاََ صحافی حضرات کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں کنوہا میں دو گھروں کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور چند افراد نے ایک غریب پر دھاوابول دیا اور اس دوران ایک 13سالہ لڑکی شدید زخمی ہو گئی مظلوم خاندان تھانے پہنچے مگر تھانے میں ان کے لیے کوئی گنجائش موجود نہ تھی اور پورے تھانے میں کوئی بھی درد رکھنے والا آفیسر موجود نہ تھا کیو نکہ پولیس ظالموں کے ساتھ ساز باز کر چکی تھی کیونکہ شدیدزخمی بچی اولیسہ کے خاندان والوں نے پولیس کی جیبیں گرم نہیں کی تھیں بچی کو تشویش ناک حالت میں راولپنڈی ہولی فیملی ہسپتال داخل کرادیا گیا اس دوران کے غریب خاندان مقدمہ کے اندر اج کے لیے دوائیاں دیتا رہا مگر تھانہ کلرسیداں کے ایس ایچ او اور تفتشی افسر نے اس غریب خاندان کی ایک نہ سنی مظلوم سعید کی 13سالہ بیٹی اویسہ 14روز موت وحیات کی کمشکش میں رہنے کے بعد ظالم دنیا سے دور چلی گئی اورزندگی کی بازی ہار گئی بیٹی کی وفات پر والد اور والدہ پر غشی کے دورے پڑرہے ہیں مرنے کے بعد پولیس ہسپتال پہنچ گئی جائے واردات پر بھی چلی گئی لیکن کیا مقدمہ مرنے پر ہی درج ہو سکتا ہے اس اتنے بڑے ظلم پر کوئی بھی ادارہ حرکت میں نہ آسکا کلرسیداں کی کسی بھی سیاسی پارٹی کو غریب ومظلوم خاندان سے ہمدردی کی توفیق نہ ہو سکی سچ تو یہ ہے کہ ہم بالکل بے حس ہو چکے ہے ہمارے اندر سے اخلاقی جرات بالکل ختم ہو چکی ہیں اور ہمارا کردار محض ایک تماشائی تک محدود ہو چکا ہے سارے علاقہ کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ تھانہ کلرسیداں اور پولیس چوکی چوکپنڈوری پر کسی مقدمہ کا اندراج بہت نا ممکن کام بن چکا ہے کس کی ہمت ہے جوان دونوں جہگوں پر بغیر کسی بڑی سفارش یا پیسے کے کوئی کام ایف آئی آر کٹوا سکے تھانہ صرف غریبوں کے خلاف مقدمات درج کرنے میں بہت جلدی کرتا ہے اور اور کسی غریب کے خلاف اگر کوئی معمولی سی درخواست بھی ہو جائے تو اسے جان بخشی کے لیئے اپنا سب کچھ لاٹانا پڑتا ہے پھر بھی اس کی جان بڑی مشکل سے چھوتی ہے کلرسیداں دارالظلم بن چکا ہے اس اتنے بڑے واقع پر ایس ایچ او کو معطل کر دینا بھی انصاف کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے اور پوری تحصیل کلرسیداں کا باسیوں کے لیئے لمحہ فکریہ ہے اگر تھانے کے یہی حالات رہے تو یقیناًلوگ اپنے گھروں میں ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے فیصلے کر نے کو ترجیح دیں گئے تھانہ میں جانے کو خوف کی علامت سمجھیں گے اگر اس مظلوم خاندان کی پر وقت قانونی امداد کی جاتی تو شاید حالات اب کی نسبت کچھ بہتر ہوتے اور پولیس کے خلاف اتنی نفرت نہ پیدا ہوتی لیکن پولیس کی زیادیتوں میں دن بدن اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے اور اس میں کوئی کمی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے تھانہ عقوبت خانے کا روپ دھار چکا ہے چند دن پہلے ہی کا واقعہ ہے کہ پولیس نے چار معصوم شہریوں جن میں ایک مقامی صحافی کا شف علی بھی شامل تھا جس کو امن کا بہانہ بنا کر تھانہ میں بند کر دیا گیا اور ان کا کوئی جرم نہ تھا ان چاروں افراد کو ساری رات بٹھائے رکھا اور عدالت کے زریعے ان کو رہائی ملی ایسے واقعات پولیس کے لیے سخت بد نامی کا باعث بن رہے ہیں اور سارا علاقہ اضطراب کا شکار رہے کہ اگر ہمارے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے تو کس سے انصاف مانگیں کئے کیا ہم بھی انصاف کے انتظار میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیں گے کلرسیداں میں اب جرائم کی شرح میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے مگر پولیس قابو پانے میں بری طرح نا کام ہے ہے ہرشعبہ میں اچھے اور برے لوگ موجود ہیں مگر پولیس کا محکمہ کچھ زیادہ بد نام ہوتا جا رہا ہیں ماضی میں پولیس کی کارکردگی اچھی نہ ہونے کی وجہ کم تنخوا ہیں بھی تھی لیکن موجودہ وقت پولیس کی تنخواہیں دیگر تمام سرکاری اداروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور حالات بھر بھی جوں کے توں ہی ہیں تھانے تو ضلع راولپنڈی میں اور بھی زیادہ تعداد میں موجود ہیں لیکن تھانہ کلرسیداں کو ایک الگ حثیت حاصل ہونا چاہیے تھی کیونکہ یہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے انتخابی حلقہ میں واقع ہے اگر اس انتہائی اہم علاقہ کے تھانہ کی یہ حالت ہے تو باقی ماندہ تھانوں کا کیا حال ہو گا جرائم زیادہ ہونے کیوجہ عام آدمی کا پولیس افسران تک رسائی کا فقدان بھی ہے جس کو دور کرنے کے لیئے افسران کو اپنے پیغامات بمعہ نمبرز تمام بڑے چھوٹے اور خاص مقامات پر بورڈوں پر آویزاں کرنے چاہیے تا کہ حدود میں بے شمار ایسے واقعات وجرائم جن میں قتل اور ڈکتیاں شامل ہیں رو نما ہو چکے ہیں جو پولیس کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں اور کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جن کا ابھی تک سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے پولیس کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیئے ان تمام وارداتوں کا سراغ لگا نا ہو گا جب جرائم کی شرح کم تھی تو SPہر چودہ دن کے بعد کلرسیداں میں کھلی کچری کا انعقاد کیا کرتے تھے اب جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن کوئی پولیس آفیسر اس جانب توجہ نہیں دے رہا ہے جس کی وجہ سے اہل علاقہ میں سخت تشویش پائی جارہی ہیں اور عوام ہی سمجھ رہی ہیں کہ پولیس کا کام صرٖ ناکے لگانا اور شریف شہریوں کو تنگ کرنا رہ گیا ہیں بڑے جرائم محکمہ کی دسترس سے باہر ہو چکے ہیں پولیس کو اپنی روش بدلنا ہو گئی بصورت دیگر اویسہ جیسی کئی بے گناہ ایسے ہی بے یارومدد گار تڑپ کر مرتی رہیں گی جس کی وجہ سے عوام پولیس کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھاتے رہے گے{jcomments on}
125