یوں تو کشمیر میں جدو جہد آزادی کی تحریک 1948 میں بھارتی فوج کے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے ساتھ ہی شروع ہو چکی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کو تقویت ملتی گئی پاکستانی گورنمنٹ نے بھی مختلف ادوار میں مختلف فورمز پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور نہتے کشمیریوں کو بھارتی درندوں سے آزاد کروانے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ۔ گو کہ مختلف ادوار میں ہماری قیادت کی جانب سے لاپرواہی بھی برتی گئی جس کے بعد تحریک آزادی کشمیر کے مختلف رہنماؤں نے شدید تنقیدی انداز میں اپنے رویے کا اظہار بھی کیا میاں نواز شریف کے موجودہ دور اقتدار میں برسوں سے جدو جہد آزادی کے چراغوں میں اپنے لہو جلانے والے کشمیریوں کے لیے پاکستانی گورنمنٹ کے موقف نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے گزشتہ دنوں سارک وزرائے داخلہ کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو جب حقیقت بتاتے ہوئے آئنہ دکھایا تو بھارتی وزیر داخلہ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چل نکلے وزیر داخلہ نے نہتے کشمیریوں پر غاصبانہ تسلط کی اپنے الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تحریک آزادی کی حمایت کی جس کے چند روز بعد بھارتی وزیر اعظم نے ایک آل پارٹیز کانفرنس میں واضح بیان دیا کہ میں اپنی وزارت خارجہ سے کہوں گا کہ وہ آزاد کشمیر کی قیادت سے رابطے کریں اور دنیا بھر میں موجود کشمیریوں سے رابطے بڑھائیں ۔دوسری طرف بلوچستان میں ہمارے موقف کا شدید رد عمل بھی کوئٹہ بلاسٹ کی صورت میں سامنے آچکا ہے جس میں 72 سے زیادہ قیمتی جانیں ذائع ہو چکی ہیں قرین قیاس ہے کہ یہ بلاسٹ اقتصادی راہداری کے معاملہ پر بھارت کا شدید اور ناقابل تلافی رد عمل بھی ہو سکتا ہے جس کے بارے میں کچھ عرصہ قبل گرفتار ہندوستانی جاسوس کلبھوشن نے بھی بیان دیا تھا کہ بد نام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کا مقصد بلوچستان میں بد امنی اور دہشت گردی پھیلا کر پاک چائنہ کوریڈور کو روکنا ور پاکستان کی ترقی اور استحکام کو نقصان پہنچانا ہے گزشتہ روز بھی سکیورٹی فورسز نے ایک کامیاب کاروائی کرتے ہوئے 6 دہشت گردوں کو جڑواں شہروں کے نواحی علاقہ سے گرفتار کر لیا ہے جن کو تعلق تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے ذرائع کے مطابق یہ دہشت گرد ضرب عضب آپریشن میں پسپا ہو کر یہاں پناہ گزین تھے اور کسی بڑے سانحہ کا سبب بننے والے تھے اور سکیورٹی اداروں کوانتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے چونکہ یہ علاقہ وفاقی وزیر داخلہ کا انتخابی حلقہ بھی ہے اور آزاد کشمیر قیادت کی نقل و حرکت بھی اس پر رہتی ہے انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی یہاں موجودگی اور اس علاقہ کی جغرافیائی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر سے خارج از ذکر نہیں کیا جا سکتا مگر اہم ذرائع کے مطابق ان کے ہدف وفاقی دارالحکومت اور جڑواں شہر بھی ہو سکتے تھے وہ بھی یوم آزادی پاکستان جیسے قومی دن پر بہر حال اس علاقہ سمیت وفاقی دارالحکومت کے گر د و نواح میں دیہی علاقوں میں مقیم افغانیوں اور مقامی مشکوک افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے اور ان کو پناہ دینے والے مقامی لوگوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تحصیل کلر سیداں میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے کباڑ خانوں کو ختم کروائیں اور مقامی سکیورٹی فورسز میں سوائے وفاقی ادارہ کے باقی اہلکاروں کی غفلت کا بھی نوٹس لیں ۔ادھر مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے روح رواں اور حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق سمیت دیگر رہنماؤں نے تحریک آزادی کشمیر پر پاکستان کے زبردست موقف کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 14 اگست کو آل جموں کشمیر میں پاکستان زندہ باد کے نعروں اور پاکستان پرچم لہرانے کے اعلان کر دیا ہے چوہدری نثار علی خان کے بیان سے مسئلہ کشمیر عالمی برادری کے سامنے ایک نیا رخ اختیار کر گیا ہے اور ایک نئے موڑ میں داخل ہو چکا ہے جس سے دنیا بھر کو کشمیر میں دہشت گردی کے بھارتی واویلے کا علم ہو چکاہے کہ کشمیر میں دہشت گرد کشمیری نہیں بلکہ قابض بھارتی ہیں یوں بھی آزادی کی جد و جہد تو انسان کا پیدائشی حق ہے اور اس کے حصول کو دنیا کی کسی بھی مذہب اور کسی بھی زبان میں دہشت گردی تو ہر گز نہیں کہا جا سکتا بلکہ آزادی جیسے بنیادی حق کو دبانے کی کوشش اور قبضہ کو دہشت گردی کہا جاتا ہے بات چل ہی نکلی ہے تو ہمارے ازلی دشمن کے کردار سے پاکستان کے ہر پیر و جوان کے علاوہ عالمی برادری بھی ناواقف نہیں ہے اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ جیسے منصوبے ملک دشمن قوتوں کو چین سے سانس نہیں لینے دے رہے اور اس کے قیام کے اعلان نے پاکستان سے دوستی کا دم بھرنے والوں کا پول بھی کھول دیا ہے پاکستان کی ترقی اور معاشی استحکام کا نقصان پہنچاے کے لیے ہمارے ملک میں نقص امن پیدا کر کے لاکھوں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے مگر سلام ہے ہمارے سکیورٹی اداروں کو جو اندرونی خلفشار اور بیرونی طاقتوں سے بیک وقت نبرد آزما ہیں بہر کیف سانحہ کوئٹہ کے بعد سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کا رد عمل اور عسکر ی قیادت کے بیانات کی روشنی میں ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل کروایا جائے اور اس ضمن میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے اسی میں ایٹمی پاکستان کی اقتصادی ترقی اور ہم سب کی بھلائی ہے ۔{jcomments on}
102