یوں تو پورے ملک میں اکثر مقامات پر سڑکوں کی ایک جیسی حالت ہے لیکن یہاں صرف چند مقامی سڑکوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ چوک پنڈوڑی تا کہوٹہ تھوہا نارہ مٹور اور مندرہ کلرسیداں تا بیول دان گلی اور گوجرخان روڈ نومولود سڑکیں غرضیکہ ان کے علاوہ تمام لنک روڈز چیچک کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ کوئی بھی سڑک کچھ دن پہلے تعمیر ہوتی ہے اس میں جلد ہی جگہ جگہ کھڈے اور گڑھے پڑ جاتے ہیں جو کہ سفر کے لئے انتہائی دشوار گزار ہی نہیں بلکہ گاڑیوں اور مسافروں کے لئے وبال جان بن جاتی ہیں۔ وہ سفر جو صرف آدھے گھنٹے کا ہوتا ہے ڈیڑھ دو گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور اب دیکھا دیکھی بیماری اہم شاہراہ روات کلرسیداں روڈ نے بھی بعض جگہوں سے بیٹھنا اور اکھڑنا شروع کر دیا ہے۔ ایسی سڑکوں کی اگر بروقت مرہم پٹی نہ کی جائے تو حکومت اور عوام کا بھاری نقصان اور ساری محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔ سڑک بنانے والے تو سکے کو بھی سونا بنا دیتے ہیں۔ اتنی خوبصورتی سے سڑک کا میک اپ کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی نظر پر پردے پڑ جاتے ہیں اور عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن چند ہفتوں کی دھوپ اور ایک دو بارشوں سے ان نومولود سڑکوں کا میک اپ اتر جاتا ہے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی سامنے آ جاتا ہے۔ سڑک تعمیر کرنے والے تو ہر فن مولا ہوتے ہیں لیکن حیرانگی اس بات کی ہے کہ سڑک پاس کرتے وقت پاس کرنے والوں کی نظر ون بائی سکس کیوں ہو جاتی ہے۔ اتنے نقصان کے باوجود ٹھیکیدار اور نہ پاس کرنے والے سے پوچھ گچھ ہوتی ہے بلکہ نومولود سڑکیں جلد ہی مرمتی والے ٹھیکے کی مرہون منت ہو جاتی ہیں۔{jcomments on}
146