82

نومنتخب بلدیاتی نمائندے اور عوامی مسائل/راجہ محمد حنیف

بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری سے تعبیر کیا جاتا ہے اگر نرسری کا نظام شفاف اور مضبوط ہو گا تو ملک میں جمہوریت مستحکم ہو گی بلدیاتی اداروں میں زیادہ تر نوجوان نسل کے نمائندے منتخب ہو کر آئے ہیں جو یقیناًخدمت کے جذبے سے سر شار اور مطلوبہ صلاحیت بھی رکھتے ہیں تا ہم ان کی سیاسی تر بیت ضروری ہے تاکہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو تعمیری مقاصد کے لئے بروئے کارلایا جا سکے بلدیاتی ادارے تو بن گئے ہیں اب اختیارات نچلی سطح پر منتقلی کا بنیادی کام شروع ہونا ہے ہر یونین کونسل میں اپنے اپنے مسائل ہیں تقریباََدس سال کے بعد بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں مسائل کے حوالے سے دیہی علاقوں میں کافی کام رہتے ہیں دیہی علاقے کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں پانی کی نکاسی بہت ضروری ہے اور سوریج سسٹم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے ہر گاؤں میں گھروں کے آگے پانی کھڑا رہتا ہے لوگ ڈینگی بحار اور ہیپاٹیٹس جیسی خطر ناک بیماریوں میں مبتلاء ہو رہے ہیں دیہاتوں میں جتنے بھی رابطہ روڈ ہیں ان کے دونوں طرف انڈر گرؤنڈ سیورج سسٹم ہونا چاہیے ان اقدامات سے روڈ کی بھی مضبوطی ہو گی اور کئی بیماریوں سے بھی نجات ملے گی اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں بنیادی ضرورتیں گیس اورصاف پانی تعلیم اور علاج جس طرح شہر کے لوگوں سہولت دی جاتی ہے اس طرح دیہی علاقے میں ہر گاؤں میں یہ سہولتیں دی جائیں مگر ابھی قابل غور بات یہ ہے کہ کیا عوام کو رلیف ملے گا دیکھا جائے تو لوکل باڈی الیکشن سیاست کی پہلی سیڑی ہے معاشرے میں نچلی سطح پر جتنے کام ہو رہے ہیں منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ لوگوں کے تمام مسائل خوش اسلوبی سے حل کریں ان منتخب نمائندوں کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داری اور ایمانداری آئینی طریقے سے نبائے او رحکمرانوں کا فرض بنتا ہے کہ نچلی سطح پر اخیتارات منتقل کیے جائیں تاکہ لوکل باڈی الیکشن میں جو جنرل کونسلر اور چیئرمین منتخب ہوئے ہیں وہ اختیارات کے ناطے سے اپنے علاقے میں لوگوں کے مسائل حل کر سکیں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں