91

میں اور مکھی…….!فیصل صغیر راجہ

صحافت ایک ایساپیشہ ہے کہ اس میں بہت بڑے بڑے نام ہیں، مولاناظفرعلی خان، سیدابوالاعلیٰ مودودی ، شورش کاشمیری سے لے کرآج کے دور کے عظیم ترین صحافیوں تک ایک بہت بڑی لائن ہے عظیم لوگوں کی، جنھوں نے اپنے قول وفعل سے صحافت کے ذریعے معاشرے کی خدمت کی ، اور جن کی خدمت کے نشانات آ ج تک موجود ہیں، ہماری مقامی صحافت میں بھی انتہائی محترم ومقدس نام ہیں ، صحافت میں جنھوں نے علاقہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کووقف کررکھاہے لیکن نہ جانے کیوں مجھے صحافی کے طورپر اپناتعارف کراتے ہوئے شرم سی محسوس ہوتی ہے اور دل چاہتاہے کہ بس لوگ مجھے فیصل، راجہ کے نام سے ہی بلائیں اور بات کریں۔ پہلے ایسانہیں تھا۔ میں نے یہ پیشہ سوچ سمجھ کراختیارکیاتھاتاکہ لوگوں کی فلاح کے لئے کام کرسکوں، دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے آپ کووقف کرسکوں، میں نے ہمیشہ رزق حلال کوترجیح دی۔ کبھی بھی محنت مزدوری کرتے شرم محسو س نہیں کی۔ میں اپنے آقا ﷺ کے اس فرمان کودل وجان سے چاہتاہوں کہ ہاتھ سے کام کرنے والااللہ کادوست ہوتاہے۔ مگرنہ جانے کیوں گزشتہ کچھ مہینوں سے اپنے آپ کو صحافی کہلواتے شرم محسوس ہورہی ہے۔
یہ سوال بڑاہی اہم ہے کیاہم معاشرے سے برائیوں کے خاتمے کے لئے کام کرتے ہیں؟ یابرائیوں کی اشاعت کابدترین فریضہ سرانجام دے رہے ہیں؟ لڑکے سے بدفعلی، لڑکی کاگھرسے بھاگ جانا، اجتماعی زیادتی، بیوی کاآشناسے مل کرخاوند کوقتل کردینا۔۔۔۔۔اور بھی اسی طرح کے قبیح جرائم کی خبریں چسکے لے لے کربھیجناصحافی کوہمیشہ اچھالگتاہے اور پھریہ خبریں صبح اپنی اپنی اخباروں یاٹی وی پر رپورٹس کی شکل میں چلتی دیکھ کردل باغ باغ ہوجانایقینی طورپر اس بات کاغماز ہے کہ ہم برائی کودبانے نہیں بل کہ اسے پھیلانے کاانتہائی گھٹیاکام سرانجام دے رہے ہیں۔ زناجیسے جرم کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ہماراقلم اوردل کبھی نہیں کانپا،کہ ہم یہ کیاکررہے ہیں؟ زناکے بارے میں حکم ہے کہ چارگواہ لائے جائیں اور اگرکوئی شخص جویہ الزام لگائے چارگواہ نہ لاسکے تواس پرقذف لگائی جائے گی۔ اسلام کامطمع نظریقینی طورپر اس فعل کوختم کرناہے ،لیکن اس قدربڑے جرم کے ثبوت کے لئے گواہوں کی شرط بھی بڑی ہے۔ اسلام یہ چاہتاہے کہ اگرکسی کے پاس چارگواہ موجود نہیں توکم ازکم وہ اپنامنہ توبندرکھے، کیوں کہ منہ کھولنے سے اس بڑے جرم کی تشہیرہوگی اور معاشرے میں ابتری کاپھیلنافطری بات ہے۔
حدیث شریف کامفہوم ہے کہ جولوگوں کی پردہ پوشی کرتاہے اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا، کیامیں بہ طورصحافی لوگوں کی پردہ پوشی کرتاہوں؟ یہ سوال ہتھوڑے بن کردل پر ہروقت سوار رہتاہے۔ لوگوں کے عیبوں کوڈھونڈنا، لوگوں کی ذاتی زندگی میں زقندلگانا، لوگوں کی ماؤں اور بہنوں بارے تجسس کرنا، کیا یہ عیب پوشی ہے ؟
ایک دن میں گھرمیں بیٹھاتھاکہ کہیں سے ایک مکھی اڑتی ہوئی آگئی، میرے پاؤں پر ایک چھوٹاسازخم تھا، وہ میرے جسم پر بیٹھی مگرتھوڑی ہی دیرمیں زخم پر پہنچ کرجم گئی ، میں نے محسوس کیاکہ اس مکھی اور مجھ میں کوئی فرق نہیں، یہ بھی جب بیٹھتی ہے گندگی اور بدبوپر بیٹھتی ہے اور میں جب بھی لکھتاہوں لوگوں کے عیبوں بارے ہی لکھتاہوں، کیامعاشرے میں خوبیاں بالکل ناپیدہوگئی ہیں؟{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں