129

میرے ملک کے شہریوں کو جینے دو/عمار یاسر

ملک بھر میں دہشت گردی کی نئی لہر دور رہی ہے.گزشتہ چند ایام میں ملکی سلامتی پر شر پسند عناصر کی جانب سے کئی بزدلانہ حملے کیے گئے.ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے میں {jcomments on}ملک بھر میں تقریباً 9 حملے کیے گئے.کراچی میں سماء4 ٹی وی کی وین کو نشانہ بنایا گیا جس میں نوجوان اسسٹنٹ کیمرہ مین تیمور شہید ہوا.میں میڈیا پر حملے کی سخت مذمت کرتا ہوں.اس کے علاوہ لاہور مال روڈ پر اور حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش حملے کیے گے جس میں متعدد افراد شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے.حضرت لعل شہباز قلندر کا تھوڑا تعارف کرواتا چلوں.آپ کا اسم مبارک “محمد عثمان” تھا.آپ کی پیدائش 1177ء4 میں افغانستان کے تاریخی شہر مروند میں ہوئی.آپ کے والد کا نام سید ابراھیم کبیر الدین تھا.مروند میں رہائش پذیر ہونے سے قبل آپ کے اسلاف کا مسکن بغداد اور مشہد بھی رہا.محمد عثمان کی ابتدائی تعلیم آپ کی والدہ کیزیرِنگرانی ہوئی.سات برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا.علومِ ظاہری کی تکمیل حضرت شیخ منصور کی نگرانی میں ہوئی.بہت قلیل عرصے میں آپ نے عربی اور فارسی لغت پر عبور حاصل کیا.ظاہری علوم کے حصول کے بعد آپ کا رجحان معرفتِ الہٰی یعنی حقیقی علم کی طرف ہوا.اس ضمن میں آپ نے افغانستان کے قصبے سبزوار کا سفر کیا.صرف و نحو کے علوم میں یدِطولہ رکھنے والے حضرت محمد عثمان مروندی پائے کے شاعر بھی تھے.آپ کی شاعری معرفتِ خداوندی سرکارِ مدینہ کی مدح سرائی اورطریقت و تصوف کے اسرار و رموز پر مبنی ہے.آپ نے 1196ء4 میں سندھ کا رخ کیا اور تاریخ کے مطابق 1151ء4 میں سیہون شریف میں سکونت پذیر ہوئے.دنیا ولایت کا یہ شمس 1275ء4 میں غروب ہوا لیکن عالم اسلام کے افلاک پر تاقیامت قائم رہنے والی شفق چھوڑ گیا.آپ کا مزار 1356ء4 میں تعمیر کیا گیا.آپ نے پوری حیات اسلام امن و امان بھائی چارے اور برابری کا درس دینے میں وقف کر دی اور یہی وجہ ہے کہ ذات پات فرقہ اور مذہب کی قید سے آزاد ہو کر پوری دنیا سے نیاز مندوں کی بڑی تعداد آپ کے مزار پر حاضر ہوتی ہے اور نظرانہْ عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کرتی ہے.آپ کے عرس کی سالانہ محفل 18 شعبان کو منعقد ہوتی ہے.لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش حملے میں 85 افراد شہید اور 300 سے ذائد زخمی ہوئے.یہ حملہ در حقیقت اہلِ نظر کی بینائی,اہلِ ذوق کے شوق اور عقیدت مندوں کی عقیدت پر کیا گیا.دوسرے دن ٹی وی سکرین پر خبر سنی کہ قلندر کے مزار پر معمول کی رسومات کا دوبارہ سے آغاز ہو چکا ہے.ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں ٹپک پڑے.اشک شہیدوں کے درد سے بھرے ہوئے نکلے جبکہ ہنسی شر پسند عناصر کی ناکامی پر.مرنے والا تو مر گیا گل سڑ گیا کم بخت کو زمین تک نصیب نہیں ہوئی لیکن قلندر کے پروانے بے خوف و خطر جذبہْ عشق سے سرشار مزارِ لعل پر باعثِ رونق بنے ہوئے ہیں.یہ ڈھپڑ دہشت گردوں اور ان کے سہولتکاروں کو ضرور محسوس ہوا ہو گا.پاکستان میں مزار کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی کئی بار یہ احمقانہ حرکتیں کی جا چکی ہیں.درگاہ شاہ نورانی,درگاہ غلام شاہ غازی سمیت حضرت بابا فرید,بری امام,عبداللہ شاہ غازی اور داتا گنج بخش کے مزرات پر حملے کیے جا چکے ہیں.
دہشتگردی کے یہ تمام واقعات حکومتی داخلہ,خارجہ اور دفاعی پالیسز کی ناکامی اور حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے.لاہور دھماکے سے قبل سیکوڑٹی ایجنسز کی طرف سے حکومت کو محتاط کر دیا گیا تھا مگر شہنشاہ بالا ٹس سے مس نہ ہوئے.روایتی انداز اپناتے ہوئے رھماکے کے بعد کچھ رسمی تعزیتی اور مذمتی الفاظ دہرائے گئے جو کہ نہ صرف موجودہ بلکہ گزشتہ حکومتوں کا بھی طرزِ عمل رہا.ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ اعلی حکام کی طرف سے نوٹس ہمیشہ کسی ناگہانی واقعے کیوقوع پذیر ہونے کے بعد لیا جاتا رہا ہے.پنجاب میں سی ایم صاحب اکثروبیشتر نوٹس لیتے دکھائی دیتے ہیں اور شاید ہمارے ہاں تھانہ کلچڑ میں یہ رواج بنتا جا رہا ہے جب تک خادمِ اعلی نوٹس نہیں لیں گے تب تک کسی مظلوم کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی جاتی.گزارش یہ ہے حضورِ والا ! یہاں ہر دوسرا شخص حالات کا مارا ہے.آپ پنجاب کی 12کروڑ عوام کو بیک وقت ڈیل یقیناً نہیں کر سکتے براہِ کرم اس نظام میں اصلاحات لائیں.اداروں کی خودمختاری کو یقینی بنائیں.سہیون دھماکے کے بعد سندھ حکومت وسائل کی عدم موجودگی کا رونا روتی رہی.زخمیوں کو ریسکیو کرنے میں سندھ حکومت ناکام دکھائی دی.آپ قارئین کے گوشگزار کرتا چلوں سندھ حکومت سالانہ 25 ملین روپے یعنی 2.5 کروڑ سالانہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی برسی پر خرچ کرتی ہے.جیئے بھٹو! تھر میں عوام بھوک سے مر رہی ہے تو کوئی بات نہیں.
پاک افواج اور دیگر سیکورٹی ایجنسز کو سوشل میڈیا پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو کہ میرے لیے کوئی ذیادہ تکلیف دہ نہ تھا کیونکہ میں اپنی قوم کے اس بچگانہ برتاؤ سے واقف ہوں.پاکستانی قوم شروع سے ہی ایک جذباتی قوم رہی ہے.دو دن میں کسی کو ہیرو بنانا پھر اچانک سے اسے زمین پر دے مارنا ہمارہ المیہ رہا ہے.ہمیں بحثیت ایک قوم اپنے مزاج میں ٹھراؤ لانے کی اشد ضرورت ہے اور اس بچگانہ فطرت کو بدلنہ ہو گا.کافی تعجبانہ امر ہے کہ ہم اپنی ووٹ جنہیں پیش کرتے آ رہے ہیں ان کی کادگردگی پر بہت کم لوگ سوال اٹھاتے ہیں لیکن ہم بیرونی تحفظ اور اندرونی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات زلزلے سیلاب میں بھی پاک افواج کو طلب کرتے ہیں ہے اور پاک افواج نے ہمیشہ اپنا کردار بخوبی ادا کیا ہے.قوم سے یہ اپیل ہے کہ دہشت گردی کی جھنگ میں اگر ہم انفرادی سطح پر عملی طور پر بے بس ہیں تو کم از کم اس لڑائی میں پاک افواج کی ہمت بنیں اور مختلف سوشل پلیٹ فارم پر اپنی بہادر افواج کی کارگردگی کو سراہا جائے.
گزشتہ ایام میں دہشت گردی کے واقعات نے پورے ملک کی فضائیں سوگوار کر دی ہیں.اپنے احساس و جذبات سے کچھ الفاظ کی جغل بندی کر پایا ہوں جو آپ کے پیشِ نظر کرنا چاہوں گا.
خداراہ ترس کھاؤ تم ان بے سہاروں پر
قسمت کے ہاروں پر یہ اپنوں کے مارے ہیں
اپنوں کے زخم تو سینے دو میرے شہر کو جینے دو
کس فردوس کے طالب ہو بہا کر خون لوگوں کا
جدا کر ماں کو بیٹے سے تجھے جنت ملے کیسے ?
انہیں تم سانس لینے دو میرے شہر کو جینے دو
انسان نما تم لگتے ہو کس دین کے طابعدار ہو تم
مسجد مندر سے دور بہت یزید کے پیروکار ہو تم
دو گھونٹ تو پانی پینے دو میرے شہر کو جینے دو
منزل ابھی ہے دور بڑی ساحل تو کب کا چھوڑ دیا
ہوائے تند کے جھونکے ہیں یا رب ! بچا لے ملک میرا
منزل سے لگا سفینے دو میرے شہر کو جینے دو
میرے شہر کو جینے دو

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں