67

ملک کو بچانا ہو گا / ندا وحید

اس ملک کے لئے عزم ہمارا ہے اس ملک کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے بڑوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں کتنی جدوجہد کے بعد اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اس لئے ہمیں اس وطن عزیزکو بچانے کیلئے کوئی نہ کوئی کوشش کرنی ہو گی آج ہم جب اپنے ملک کو اس طرح ذرے ذرے میں بکھرا ہوا دیکھتے ہیں تو ایک سرد لہر ہمارے جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور بس ایک ہی احساس ہوتا ہے کہ ہماری کوئی چیز محفوظ نہیں اور اس کے باوجود بھی ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس کی حفاظت کیسے ممکن ہے اس کے لئے ہم کو چاہیے کہ ہم مل کر کام کریں اور حکومت سے بھی اپیل کریں کہ اس نیک کام میں وہ ہماری مدد کریں اور کچھ ایسی تنظیموں کا وجود ممکن بنائیں جو لوگوں کی عزت ،مال،جان اور روزگار کی حفاظت کرنے میں برابر کے شریک ہوں اور اس کے ساتھ ہمیں بھی کچھ ایسے کام کرنے کا رادہ کرنا ہو گاجس کے زریعے ہم ان چیزوں سے مکمل طور پر نجات مل سکے اور آج کے دور میں ایک اور چیز جو بہت عام ہے اور وہی سب سے زیادہ سزا کے قریب لے جانے والی ہے اور وہ ہے رشوت خوری اور سود یہ دو ایسی لعنتیں ہیں جو ہمارے ملک اور معاشرے میں فساد برپا کئے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہمارے مختلف نظاموں میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اگر معاشرے میں ان دونوں لعنتوں کا خاتمہ کیا جائے تو ہمارے ملک جیسا خوشحال ملک دنیا ہیں کسی جگہ موجود نہ ہوگا لیکن کیا کہوں ہمارے ملک کے سیاستدان بھی اس لت میں لگے ہوئے ہیں دوسروں پر لعن تعن کرنا ،الزام لگانا اور اپنا کام دوسر وں پر چھوڑنا ان کا اصول بنا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو خوشحالی چھوڑ کر کہیں دور چلی گئی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں اگر ہم اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہمارا ووٹ کس قدر اہم ہے کیونکہ اگر ہم آنکھ پر پٹی باندھ کر ووٹ کا استعمال کریں گے تو کیاہو گا اور میرے ایک انتہائی قابل احترام استاد ہیں جو کہتے ہیں کہ آج کل تو وہ لوگ بھی ووٹ ڈالتے ہیں جن کو یہ نہیں پتا کہ ووٹ لکھتے کیسے ہیں یا ’’ووٹ‘‘ہوتا ہے یا ’’گوٹ‘‘اب جو لوگ ووٹ کو گوٹ کہتے ہوں ان کو کیا پتا ہے کہ ہمارا ووٹ کتنا اہم ہے اور ہمارے ایک ووٹ سے کتنا اثر پڑ سکتا ہے اور ایک اور نظام جو ہمارے ملک میں رائج ہے وہ برادری بنیاد ہے اس میں ایک برادری کا بڑا فرد سب کو قائل کرتا ہے کہ فلاں کو ووٹ دینا اسی وجہ سے اس ملک میں مختلف نشستوں پر ان پڑھ لوگ قابض ہو جاتے ہیں اور ہمارے معاشرے کا توازن بگاڑتے ہیں ۔جواء ،کبوتر بازی،مرغے لڑانا اور بیل دوڑ کے سوا انہیں کچھ نہیں آتا ان کو جو رقم فلاحی کاموں کے لئے دی جاتی ہے وہ اس کو اپنے مزے اور عیش و عشرت میں خرچ کر دیتے ہیں اور فلاحی کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور نام یہ ہوتا ہے کہ فلاں کو فلاں گاؤں کیلئے اتنی رقم دی گئی ہے اس لئے اس دلدل سے نکلنا بہت ضروری ہے اور یہ کرنا بہت لازمی ہے ۔
اس طرف قدم بڑھانا ہو گا
عزم نیا اپنانا ہو گا
عہد یہ ہم کو نبھانا ہو گا
ملک کو اپنے بچانا ہو گا
ہمیں اس بات پر قائم رہ کر اس ملک کی حفاظت کرنی ہے اور یہ امانت جو ہمیں ملی ہے اسے اس طرح اگلی نسلوں کے حوالے کرنا ہے اے اللہ ہمارے اس ملک کو محفوظ فرما ۔آمین{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں