115

مصالحتی کمیٹیاں /جبار راجہ

اشفاق احمد کا قول بار بار میرے ذہن میں آتا ہے ’’ مسلمانوں کے نہ رکنے والے زوال کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آسانیاں تقسیم کرنے کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کرنے کا فن سیکھ لیا ہے‘‘۔مصالحتی کمیٹی ہر یونین کونسل اور گاؤں کی سطح پر قائم ہونی چائیے۔ چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑوں کی صورت میں تھانے اور کچہری میں جو پیسے لگ جاتے ہیں اس کی بچت ہو جاتی ہے، مصالحتی کمیٹیاں ہر سطح پر قائم ہونی چائیں ۔ پندرہ سے بیس افراد ایک کمیٹی کے ممبر ہونے چائیں اور انہی میں سے ایک کنویز مقرر کریں ۔ ممبران کون ہونے چائیں ؟سوسائیٹی میں سے اچھے کردار کے ایسے لوگ شامل کیے جائیں جن پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ ریٹائرڈ سول اور قومی افسران ، ضلعی عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان یونین کونسل کی سطح پر عوام کے کچھ منتخب نمائندوں اور معاشرے کے قابلِ احترام افراد کو کمیٹیوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔ہر یونین کونسل کی عمارت میں ہی ان کا دفتر قائم کیا جائے جس میں ہر روز کچھ ممبران ضرور بیٹھا کریں۔ روز مرّہ کی درخواستوں کے علاوہ درج شدہ مقدمات بھی مصالحتی کمیٹیٰوں کو ریفر کیا جائے ۔ متعلقہ تھانے اور چوکی کی درخواستیں ان کی طرف بھیجی جائیں ۔ مقدمے کے فریقین کو کیسے بلایا جائے؟ فریقین کو بلانے کی زمہ داری متعلقہ پولیس اسٹیشن یا چوکی کی ہونی چائیے ۔کمیٹیوں کو ہر قسم کی مدد پولیس فراہم کرے۔ہر کمیٹی میں تین سے پانچ ممبران پر مشتمل ایک پینل ہونا چائیے جو کسی بھی مسئلے یا تنازعے کا فیصلہ ایک ممبر نہیں بلکہ پورے پینل کو کرنا چائیے۔ ممبران بلا معاوضہ کام کریں اور لوگوں کے درمیان صلح کروا کے معاشرے سے لڑائیاں ، تلخیاں اور رنجشیں کم کرنے میں بڑا مفید کردار ادا کریں۔اس سے مجھے ایک قول یاد آیا ’’ہر آدمی اپنا درخت الگ الگ اگانا چاہتا ہے اسی وجہ سے انسانیت کا باغ تیار نہیں ہوتا‘‘۔لڑائی جھگڑوں کے کیس ، پیسوں کے لین دین کے تنازعے ،مکان،زمین،دیواراور گلی سے متعلق فریقین کے جھگڑے ، میاں بیوی کے درمیان جھگڑوں کے کیس اور پولیس کے خلاف درخواستیں بھی مصالحتی کمیٹی حل کرے۔ اورپولیس وقت اور وسائل اصل اور بڑے جرائم سے نمٹنے میں صرف ہو۔آپ دیکھیں یورپ اور امریکہ میں ہر کام یونین کونسل کی سطح کونسل پر حل ہوتے ہیں۔ وہاں وزیر اور وزیرِ اعظم ملکی اور بیرونی معاملات حل کرتے ہیں۔آپ کا اگر وزیرِخزانہ ،وزیرِدفاع اور وزیرِخارجہ گلی محلّے کے مسائل حل کریں گے تو ان کے لیے وزارت چلانا مشکل ہو جائے گا اور اس طرح ملک ترقی کے دور سے پیچھے رہ جائے گا۔ آپ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یورپ اور برطانیہ کے ممالک میں جنگیں ہوئیں اور لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام ہوا۔ ان قوموں میں آخر میں ان سب مسائل کا حل تلاش کیا آج وہ قومیں عروج پر اور ہم زوال پر ہیں۔آپ ایک علاقے یا شہر میں تبدیلی لائیں اور ان کی دیکھا دیکھی کافی علاقوں اور شہروں میں خود بخود تبدیلی آ جائے گی انشااللہ۔ {jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں