137

مردم شماری ۔ایک قومی ضرورت/مشتاق علی

معمولات زندگی کی بجا آوری کے لیے مناسب لائحہ عمل اپنانا اور منصوبہ بندی کرنا ایک لازمی امر ہے ورنہ کسی انفرادی ،اجتماعی یا حکومتی سطح کے منصوبے کے مطلوبہ اہداف اور فوائد حاصل نہیں کیے جا سکتے چنانچہ اسی حکمت عملی کے تحت مطلوبہ منصوبے سے متعلق زمینی حقائق اور مختلف نوعیت کے دیگر اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی منصوبہ بندی کر کے اس پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے انفرادی حثییت میں آپ نے کو ئی کام کرنا ہو تب بھی آپ اس کے لیے لائحہ ترتیب دیتے ہیں اس کے بغیر کوئی کام کریں گے تو کامیابی کے امکانات بہت کم ہو ں گے اسی طرح ایک عسکری قیادت جب بھی کسی آپریشن کی تیاری کرتی ہے دستیاب سامان حرب افرادی قوت ،متعلقہ ایریا کی معلومات ،مدمقابل حریف کی دفاعی صلاحیت سے متعلق اعداد و شمار کو مد نظر رکھ کر حکمت عملی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اگر یہ سب کچھ نظر انداز کر کے کوئی کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو اس کی کامیابی کے امکانات منہدم ہو جاتے ہیں حکومتی سطح پر بھی عوام کی فلاح و بہبود کے مختلف ترقیاتی منصوبے بوقت ضرورت بنتے رہتے ہیں جن میں صحت عامہ،تعلیم ،ہاؤسنگ، خوراک ،آبی وسائل اور مواصلات وغیر ہ کے شعبے شامل ہیں کسی بھی شعبے میں بنائے جانے والے منصوبے قابل عمل ہونیکا جائزہ اس سے متعلقہ اعداد و شمار کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ ملکی آبادی کے مستنداعداد و شمار کی عدم موجودگی میں اپنی افادیت کھو دیتا ہے چوں کہ آبادی ہی تمام منصوبوں کی محور ہوتی ہے بآلفاط دیگر آبادی ہی تمام حکومتی منصوبوں کی بنیاد ہوتی ہے جب اسی کے متعلق آپ کے پاس مستند اعداد و شما رنہیں ہو ں گے تو پھر مفروضوں کی بنیاد پر کی گئی منصوبہ بندی کیوں کر قابل عمل ہو گی اس مقصد کے لیے محکمہ شماریات موجود ہے جسے آئین پاکستان کی رو سے ہر دس سال بعد مردم شماری کے فرائض تفویض کیے گئے ہیں مگر یہ سب آئین کی کتاب میں ہی محفوظ ہو کر رہ گیاہے آخری مردم شمار ی 1998 ء میں ہوئی تھی اب تو 2018ء کی مردم شماری کی تیاریاں شروع ہوجانا چاہیں تھیں 18برس میں تین حکومتیں آئیں مگر کسی ایک نے بھی قومی مسئلہ پر توجہ نہیں دی۔موجودہ حکومت بھی وہی پالیسی اپنائے نظر آتی ہے جو اس نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اپنائی محکمہ ہذا نے اس سال مردم شماری نہ کرانے کا کیسا بہانہ تراشا ہے کہ فوج ضر ب عضب میں مصروف ہے اگر مطلوبہ تعداد میں فوجی جوان دستیا ب ہوئے تو اگلے سال مارچ میں یہ کام کیا جائے گا ۔اگر فوجی جوان مارچ میں بھی دستیاب نہ ہوئے تو کیا ہوگا وہی جو حکومت چاہتی ہے ٹال مٹول یادرہے کہ ملک میں آخری مردم شماری کے انعقاد سے بیشتر اس ضمن میں فوج کا کوئی عملی کردار نہیں تھا یہ کام سرکاری محکمہ جات کے حاضر اور ریٹائرڈ ملازمین کی خدمات حاصل کر کے سر انجام دیا گیا تھا تو اب ایساکیوں ممکن نہیں پاک فوج ملکی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے کیا یہ کام فوج کی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے اگر یہ سب کچھ فوج نے ہی کرنا ہے تو پھر دیگر سرکاری محکمے کس مرض کی دوا ہیں کیا وہ صرف مراعات اور سہولیات کے حصول کے لیے آئے دن ہڑتالیں کرنے کے لیے ہیں ہمارے ہاں ستم ظریفی یہ کہ کہ جو سرکاری ملازم یا محکمہ نیک نیتی اور محنت سے اپنے فرائض انجام دیتا ہے اس پر مزید بوجھ لاد دیا جاتا ہے ایک مثل مشہور ہے کہ ’’اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘‘یہی کچھ ہماری فوج کے ساتھ ہو رہا ہے مردم شماری کی افادیت اور اہمیت کا یوں اندازہ لگائیں کہ اس کے اعداد و شمار ہی کو بنیاد بنا کر اقوام عالم مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور آبادی کے تناسب سے عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے ترتیب دئیے جاتے ہیں جس منصوبہ بندی کی بنیاد مفروضوں پرکی جائے وہ منصوبہ کیوں کر اپنی افادیت ثابت کر سکے گا ہمارے منصوبوں کی ناکامی کا بڑا سبب اور وجہ یہ بھی ہے ہر آنے والی حکومت کا ہدف پانچ سال دورانیہ مکمل کرنا ہوتا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز جتن کرتی ہے اسکا مطمع نظر کبھی بھی عوامی فلاح و بہبود نہیں رہا غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ سال کے بجٹ میں اس مقصد کے لیے رقم بھی مختص کی گئی ہے تو پھر ٹال مٹول جیسے بہانے کس لیے ۔ارباب اختیار اسی کی افادیت اور اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے جلد از جلد انعقادکو ممکن بنائیں کیوں کہ یہ ہر شعبے کی منصوبہ بندی کی بنیاد ہے اور اس کا تعلق براہ راست عوامی مسائل ،حقوق منصفانہ کی تقسیم اور ترقیاتی منصوبوں کی بہتراور موثر منصوبہ بندی سے ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں