80

ماں / بلاول ریاض

یہ دنیا فانی ہے ۔ اس دنیا میں بہت ساری ہستیاں ملتی ہیں ۔ ہر انسان کی زندگی میں کوئی ایک شخصیت بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن مجھے اپنی زندگی میں جس شخصیت نے سب سے زیادہ مسحور کیا وہ میری ماں ہے جسے ہم آئیڈیل بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ماں کی عظمت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے کوئی جھٹلا سکتا ہے ۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا!’’ ماں کے قدموں میں جنت ہے ‘‘۔ لیکن بدنصیب ہے وہ اولاد جو اس جنت سے محروم ہے میری یہ خوش نصیبی ہے کہ میری زندگی میں میری ماں موجود ہے اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ماں کو اور سب کی ماؤں کو ہمیشہ سلامت رکھے ۔ امین۔ماں اپنے بچے کو ہر تکلیف سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتی ہے ماں کی عظمت کا اندازہ کوئی کیسے لگا سکتا ہے ۔ ماں کی قربانیوں کا احسان کوئی کیسے چکا سکتا ہے کس طرح ایک ماں اپنی اولاد کے لیے تکلیفیں برداشت اور اولاد اپنے ماں باپ کے لیے کیا کرتی ہے کچھ بھی تو نہیں۔ماں کی تمنا کے جذبوں کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب ہم بے عقل بے زبان جانوروں کی ماں کو دیکھتے ہیں۔ایک مرغی اپنے بچوں کوبلی یا چیل سے بچانے کے لیے انہیں اپنے پروں میں لے لیتی ہے۔جیسے وہ اِس کی ذات کا حصّہ ہوں۔عرض کہ ماں کے ایثار اور کا بدلہ لوٹانا اولاد کے بس کی بات نہیں ہے۔ایسی بھی نافرمان اولاد ہوتی ہے جو اپنے والدین کو بڑھاپے میں سہارادینے کی بجائے اپنے اُوپر بوجھ سمجھتی ہے اور پھراِنہیں کسی اولڈ ہاؤس یا کسی دارالامان میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔وہ والدین جنہوں نے ان بچوں کو ساری زندگی پالا پوسا ‘ پڑھایا لکھایا انہیں اچھا لباس ‘ آسائش و زیبائش اور تعلیم دی مگر اب والدین اس قابل نہیں کہ کچھ کر پائیں تو انہیں اپنی ساری زندگی کا یہ صلہ دیا جاتا ہے ۔ اولاد اپنی ماں کا ذرہ برابر بھی حق ادا نہیں کرسکتی۔ اگر آج میں اس حقیقت پر غور کروں تو اندازہ ہوتا ہے کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنی ماں کی وجہ سے ہوں میری ماں نے مجھے زندگی کی اونچ نیچ سکھائی ۔ آداب زندگی سے روشناس کرایا ۔ حیرت ہے مجھے ان لوگوں پر جو ہمیشہ بہترین دوست کی تلاش میں رہتے ہیں یہ میرا دعویٰ کہ ایک دفعہ اپنی ماں سے دوستی کر کے دیکھیں زندگی کتنی آسان ہوجائے گی میرے نزدیک ماں اور پھول میں کوئی فرق نہیں جس طرح گلاب کا پھول کانٹوں کی سیج میں پروان چڑھتا ہے اور سارے چمن کو معطر کرتا ہے بقول ایک مفکر ماں سایہ دار صنوبر کا درخت ہے جس کے سائے میں اولاد راحت پاتی ہے ۔ اس لیے ماں کی شخصیت میں ایک بہترین دوست کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں ۔جس طرح ماں ایک شفیق استاد اور ایک بے باک رہنما ہے اس طرح ماں ایک بے لوث دوست بھی ہے ۔ اس لیے ہمیں ماں کی ممتا اوردوستی دونوں جذبات سے فائدہ اٹھانا چاہیے بقول ایک مفکر کے ماں وہ جنت ارضی ہے جس کی نعمتیں دنیا میں ہیں اور ماں وہ نعمت ہے جو خدا اور رسول ﷺ کو بہت مقبول ہے ۔
ماں تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے
وقت رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا
{jcomments on}bilawal.riaz6@gmail.com

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں