88

ماسٹر چوہدری خیام اقبال مرحوم/حسرت نثار

ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے،،(القرآن)موت ایک اٹل حقیقت ہے ہر ذی روح نے اپنا مقررہ وقت اس جہاں میں گزار کر اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ جانا ہے لیکن بعض اوقات اپنے کسی پیارے کی اچانک جدائی پر بندہ اس کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ آیااس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے صبر کرے یا اپنے رب سے گلہ کرے اسی کفیت سے گزشتہ دنوں راقم اور اسکے خاندان کو ماسٹر چوہدری خیام اقبال کی اچانک موت کی جدائی نے مبتلا کر دیاماسٹر خیام نے اپنی زندگی کی چالیس بہاریں دیکھی تھی لیکن اپنے اعلی اخلاق اور بہترین اوصاف سے ہر دلعزیز شخصیت رہے زمانہ طالبعلمی میں ہی چاہے دینی درسگاہ ہو ہائی سکول ساگری ہو یا پنجاب کالج کامرس راولپنڈی ہو اپنے اجلے کر داراور بہترین اخلاق سے وہاں ایک منفرد مقام حاصل کیاجس کی گواہی ان کے اساتذہ اور کلاس فیلو آج بھی دیتے ہیں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے شعبہ تدریس سے ایسے منسلک ہوئے کہ آخری دم تک کم بیش 20 سال وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے اپکو جنون کی حد تک پڑھانے کا شوق تھا سائنس کے مضامین خاص کر ریاضی میں عبور تھا ان کے سٹوڈنٹس کو اکثر راقم نے یہ کہتے سنا ہے کہ ،،سر جی ریاضی سمجھاتے نہیں گھول کر پلاتے ہیں،،راقم انکے بے شمار سٹوڈنٹس کو جانتا ہے کہ جو آخری امید لیکر ان کے پاس آئے اور انکی محنت سے کامیاب ہو کر معاشرے میں فعال کردار ادا کریے رہے ہیں دیار غیر ،،سعودی عرب،، میں جب گے تو تجارت کے مقدس پیشے سے منسلک ہوئے اور حضرت عبدالرحمن عوف کے 4تجارتی اصولوں،نقد لیا نقد دیا،کبھی سودے کا عیب نہ چھپایا،کبھی سٹاک نہ کیا،کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت مختصر عرصہ میں کاروبار کو چار چاند لگا دیے کمپنی مالکان اور صارفین دونوں ہی ان سے مطمن اور خوش تھے مجھے اکثر انکی قسمت پر رشک آتا تھا انکی ایمانداری عاجزی اور انکساری اور غریب پروری کے بے شمارواقعات قارئین کی نظر کرتا ہوں ایک دفعہ دیار غیر میں انہوں نے کمپنی کی رقم سے انہوں نے معمولی رقم خرچ کی لیکن مہینے کے آخر میں انہوں نے مالکان کو اس سے بھی آگاہ کیا۔سعودی عرب سے چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے تو اپنی تعلیمی اور علمی پیاس بجھانے کے لیے آپ ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھانا شروع کر دیا اور جب سیلری ملی تو وہاں پڑھانے والے ایک ٹیچر کو دے دیا جوکہ ضرورت مند تھا۔آخری ایام میں جب وہ شدید علیل تھے اور تکلیف کی شدت تھی تب بھی وہ اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آئے،راقم کے ساتھ بحپن سے ہی انکا ایک تعلق تھا جو وقت گزرے کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا گیا
تیرے اک نہ ہونے سے ساقیا۔۔۔نہ وہ دور ہے نہ وہ جام ہے
نہ وہ صبح اب میری صبح ہے۔۔۔۔۔نہ وہ شام اب میری شام ہے
دعا ہے کہ اللہ پاک انکے درجات بلند فرمائے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں