94

لیبر ڈے/محمد اعظم احساس

یہ سال جب بھی مئی کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو نہ صرف مزدور بلکہ پوری قوم لیبر ڈے منا رہی ہو تی ہے ایسے میں وقت مجھے کوئی نصف صدی پیچھے لے جاتا ہے میری پیدائش اور تعلیم ناظم آباد کالونی فیصل آباد میں ہوئی فیصل آباد کا پرانہ نام لائل پور ہے شائدمیں دس بارہ برس کا ٹھہرا ہونگا جب میرے ذہن میں بچپن کے واقعات میرے حافظے میں محفوظ ہونا شروع ہو گئے تھے میرے والدین ملازمت کے سلسلے میں 1950کی دہائی میں لائل پور (فیصل آباد )جا بسے تھے ناظم آباد کالونی کے نزدیک پریمئر کلاتھ ملزمیں نوکر ہو گئے تھے مل ہذہ کی بڑی خوبصورت کالونی تھی جہاں میں پلا بڑھا ۔پریمئر مل میں کوئی لگ بھگ دو ہزار کے کے قریب مزدور ہوا کرتے تھے یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان کی صنعتی ترقی عروج پر تھی صرف فیصل آباد میں جسے اس وقت برطانیہ کا مانچسٹر کہا جاتا تھا کوئی پچیس سے تیس چھوٹی بڑی ملیں تھیں جہاں پر کپڑا بنتا تھا چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں تو ان گنت تھیں میں سکول کے بعد لڑکوں کے ساتھ پورے فیصل آباد میں آواہ گردی کرتا پھرتا جس گلی جس محلے سے گزرتا ہر آٹھ دس گھر کے بعد ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک کی آواز آتی لوگوں نے کپڑا بننے والی مشینیں جنہیں لوم(Loom)کہا جاتا تھا لگائی ہوتیں دو چار مزدور رکھے ہوتے جو ان مشینوں پر کپڑا بنتے اور مالک پروڈکشن کو بازار میں بیچ کر اچھی خاصی رقم کماتا۔
پریمئر مل میں مزدور یونین قائم تھی جہاں پر ہماری برادری کے مرحوم اختر حسین کیانی جن کا آبائی گاؤں تحصیل گوجرخان تھانہ مندرہ کے گاؤں درکالہ میں ہے اس وقت آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بیٹھا کرتے تھے موصوف کے نام کا طوطی بولتا تھا وہ سرمایہ داروں سے مزدوروں کے حقوق دلوانے میں ہر وقت کوشاں رہتے اور ہر سال مزدوروں کو چار تنخواہوں کے برابر سالانہ بونس دلواتے جس کے حصول کے لئے انہیں بھوک ہڑتال بلکہ جیل بھی جانا پڑتا لیکن وہ مزدوروں کو ان کا حق دلوا کر رہتے اور کبھی سرمایا دار کے سامنے مزدوروں کے خلاف اپنا سر خم نہ کرتے یہ وہ دور تھا جب لوڈشیڈنگ کا نام ہم نے سنا ہی نہ تھا قوم نے 1965کی جنگ نئی نئی جیتی تھی فیصل آباد میں اس وقت کاٹن مل ،کریسنٹ مل ،نشاط مل کوہ نور مل اور دیگر بہت سی ملیں جن کا نام بھی یاد نہیں بڑے زور شور سے صنعتی ترقی کو بام عروج پر لے جانے کیلئے کوشاں تھیں مزدوروں کی مزدوری کے اوقات کار بھی 8گھنٹوں پر مشتمل 3شفٹیں کام کرتی تھیں پھر نجانے پاکستان کی صنعتی ترقی کو کس کی نظر کھا گئی اور یہ موئی لوڈ شیڈنگ نجانے کہاں سے آگئی اس لوڈشیڈنگ کے جن نے 1980سے بوتل سے باہر آنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ فیکٹریاں اور ملیں خسارے میں چلء گئیںآج دنیا کی منافقانہ روش نے ایک بار پھر مزدور کو بے بس اور لاچار کر دیا ہے اگرچہ ٹریڈ یونینز پر پابندی اٹھائی گئی ہے مگر چندتحفظات کے ساتھ ۔یکم مئی بطور لیبر ڈے 1972سے عام تعطیل کے طور پر منایا جا رہا ہے مگر آج کا مزدور اب بھی جبر کے ایسے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے کہ وہ سرمایہ داروں کی چالوں کے سامنے اور ملک میں بے تحاشا بیروزگاری کی وجہ سے بے بس ہے اس سے کام تو سولہ آنے کا لیا جاتا ہے مگر بحیثیت انسان اس کے جائز حقوق مثلاََ میڈیکل ،بچوں کی تعلیم اور رہائش وغیرہ کا قطعاََخیال نہیں رکھا جاتا پاکستان کا آئین بھی یہ کہتا ہے کہ ریاست قوانین کے زریعے محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کرے اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان صنعتی میدان میں ترقی کرے تو لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ محنت کشوں اور مزدوروں کے جائز مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ان کی فلاح و بہبود کا بھی کام کرنا ہو گا آخر میں تنویر سپرا کے ہاں محنت کش طبقے کی آواز جو برسوں پہلے نکلی تھی آج بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے جسے میں موجودہ حکومت اور سرمایہ داروں کی نذر کرتا ہوں اس امید کیساتھ کہ مزدوروں کے حقوق کی ہمیں آج کے دن کی مناسبت سے از سرنو تجدید کرنا ہو گی ۔
مزدور ہوں محنت کا صلہ مانگ رہا ہوں
حق دیجئے خیرات نہیں چاہیے مجھے {jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں