علم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں جاننا، سمجھنا اور واقف ہونا۔ اسلام میں حصولِ علم کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ کیوں کہ اِس کے بغیر انسان اللہ کی قربت یا دین و دنیا کی کامیابیاں حاصل نہیں کرسکتا۔ مادی ترقی کے موجودہ دور میں جو بھی اقوام بامِ عروج پر ہیں اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُن کا علمی پلہ بھاری ہے۔ علم کسی مخصوص طبقے یا فرد کی وراثت نہیں بلکہ ہر فرد اپنی محنت، کوشش اور صلاحیت سے اِسے حاصل کرسکتا ہے۔ اِس کی افادیت کا احساس جو اب پایا جاتا ہے اُس کے بارے میں اِسلام نے بُہت پہلے آگاہ کردیا تھا۔ بلا شبہ شریعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل سے عہدہ برآ ہونا عین عبادت ہے بشرطیکہ یہ دینی حدود کے اندر ہو۔ لہذا دُنیا سے متعلقہ علوم کا حصول اُس وقت ایک دینی عمل بن جاتا ہے جب اس کا مطمع نظر خدمتِ خلق ہو۔ علم کی اہمیت کے بارے میں درج ذیل چند آیاتِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں۔ (1) پہلی نازل ہونے والی وحی میں ارشاد ہوا۔ ’’اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے انسان کو پیدا کیا‘‘ (العلق: 1)۔ (2) فرمادیجئے کہ ’’آیا عالم اور جاہل دونو ں برابر ہوسکتے ہیں‘‘ (الزمر:9)۔ (3) ’’اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما‘‘ (طٰہ: 34)۔ علم کے بل بوتے پر انسان نے قدرت کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھایا اور اپنے لئے بہت ساری آسانیاں اور آسائشیں پیدا کیں۔ پوری دُنیا میں قائم مدارس، سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں انتقالِ علم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ یہاں سے اقدار اور روایات جنم لیتی ہیں اور یہاں سے ہی ملک و قوم کے بقا اور انہیں ناقابلِ تسخیر بنانے کے معمار تیار کئے جاتے ہیں۔ افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور تعمیرِ سیرت و کردار میں والدین کے بعد معلّم کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے معلّم کو اعلیٰ منصب پر فائز کیا۔ اُسکا احترام اِس لئے بھی پورے معاشرے پر لازم ہوجاتا ہے کہ حضورِ پاکؐ ’’معلّمِ اعظم‘‘ کی مسند پر بھی فائض ہیں۔ حضرت علیؓ کا ایک قول ہے۔ ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اُسکا غلام ہوں چاہے مجھے بیچے یا آزاد کرے یا غلام رکھے‘‘۔ موجودہ مادی دورمیں جہاں اور بہت ساری اخلاقی اقدار پستی کا شکار ہوئیں، وہاں اُستاد، شاگرد کا باہمی احترام کا رشتہ بھی بُری طرح متاثرہوا۔ چوں کہ یہ اب احترام کی حدود پھلانگ کر کاروباری شکل اختیار کرچکا ہے۔ اساتذہ اور طلباء ہر فریق نے اپنے فرائض انجام دینے میں کوتاہی برتی۔ شاگرد کا فیس کی مد میں معاوضہ ادائیگی سمجھنا اور احترامِ اُستاد سے آزاد ہونا۔ اُس کی مختلف وجوہات کی بنا پر تضحیک کرنا۔ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ضابطے کی کاروائی کے عمل سے اُلٹا استاد کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا۔ جو بسا اوقات ملازمت سے برخاستگی یا دُور افتادہ علاقے میں تبدیلی کی صورت میں عملاً سامنے آتی ہیں۔دوستانہ اور بے تکّلفی کے ماحول نے بھی اپنا رنگ دکھایا اور شاگرد ۔ اُستاد کے سامنے جواب دہی کے ڈر سے بھی آزاد ہو گیا اور یہ بے خوفی اُسے کتابوں سے دُور لے گئی۔ یہ وہ عوامل ہیں جو اُستاد کو شاگرد سے دُور کرنے اور کلاس رُوم سے عدم دلچسپی کا سبب بنے۔ چنانچہ اُس نے تدریسی سرگرمیوں کا رُخ نئے کسبِ معاش یعنی ٹیوشن کی جانب پھیر لیا۔ جس پر وہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتا نظر آیا۔ وہ سکول میں حاضر ہوتے بھی غیر حاضر ہوتا ہے چوں کہ اُس کے ذہن میں ٹیوشن شیڈول گردش کررہا ہوتا ہے۔ اِس نئے ذریعہ تعلیم کی دریافت نے نہ صرف والدین کو اضافی مالی بوجھ تلے دبوچ لیا بلکہ کلاس کے ماحول کو ہی یکسر بدل ڈالا۔ ٹیوشن پڑھنے والے بچوں سے مخصوص رویّہ اپنانے کے علاوہ پیپر مارکنگ میں کمال فراخ دلی سے کام لیا جاتا ہے۔ جس سے ہونہار طلباء کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اور وہ احساسِ محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ طلباء اور اساتذہ یونینوں نے بھی اپنے نصب العین سے رُو گردانی کرتے ہوئے سیاسی وابستگی کو مقدم سمجھا اور سیاسی پارٹیوں کی آلہء کار بنی رہیں اور اُن کے مخصوص مقاصد کی حفاظت میں لگی رہیں۔ کبھی طلباء یونین اساتذہ سے نبرد آزما نظر آتی اور کبھی اساتذہ یونین نت نئے مطالبات منوانے کے لئے متعلقہ ادارے یا حکومت کے خلاف ہڑتالیں اور جلوس نکالتی رہیں۔سیاسی وابستگی اور پشت پناہی کے بل بوتے پر اساتذہ جب اپنے سربراہ کے احکامات ماننے سے پہلوتہی کرنے لگیں تو پھر اُس ادارے کی کارکردگی یہی ہو گی جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ایسے ماحول نے تعلیمی اداروں (بالخصوص حکومتی زیرِ انتظام چلنے والے) کے تعلیمی ماحول کو بدنظمی اور تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ جس سے طلباء اور والدین متبادل راستے کی تلاش میں چل نکلے۔ نجی شعبہ اِس صورتِ حال کا ایڑیاں اٹھا اٹھا کر جائزہ لے رہا تھا چنانچہ موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے فوراً اِس میں گھس گیا۔ یہاں غریب پھر بھنور میں پھنس گیا کیوں کہ بہتر معیار کے حامل اداروں کی فیس اُس کی پہنچ سے دُور ہے۔ جبکہ دوسرے اداروں کا تدریسی عملہ غیر تربیت یافتہ اور مطلوبہ تعلیمی معیار سے عاری ہے۔ گلی کوچوں میں شہرہ آفاق اداروں کے ناموں سے منسوب یہ ادارے تعلیم کے بینر تلے عوام کو لُوٹ رہے ہیں۔ یہاں پھر حکومتی نا اہلی اور ناقص کارکردگی کارفرما نظر آتی ہے۔ ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ دینی تعلیم کے شعبے پر نظر دوڑائیں تو اُس نے دین کو پوری دنیا میں کیسے پیش کیا۔ ہمارے معاشرے میں چھوٹے بڑے یعنی امیر، غریب کا جو تصور پایا جاتا ہے اِس کی بنیاد ہمارا نظامِ تعلیم ہی فراہم کرتا ہے۔ جس کی بنیاد درجہ بندیوں پر رکھی گئی ہے، جو متعدد نصابوں کے نفاذ کی صورت میں فروغ پارہی ہے۔ اِس طبقاتی نظامِ تعلیم نے طلباء کی درجہ بندی اُردو اور انگلش میڈیم کی صورت میں کر رکھی ہے۔ اشرافیہ یہ کبھی نہیں چاہتا کہ اِس میں کوئی تبدیلی لائی جائے۔چوں کہ یہ اُسکا چھپا ہتھیار ہے جس سے اُس نے غریب کو کنویں کا مینڈک بنا رکھا ہے۔ اِس نظام کو اِس نہج تک پہنچانے میں طلباء، اساتذہ اور محکمہء تعلیم کی اجتماعی غفلت اور کوتاہی کارفرما ہے۔ اربابِ اختیار مستقبل کے ان معماروں کی بہتر تعلیم و تربیت کو خاطر میں لاتے ہوئے فوری طور پر بہتری لائیں۔ ایک چینی کہاوت ہے ’’اگر منصوبہ سال بھر کے لئے ہے تو فصل کاشت کرو، اگر دس سال کے لئے ہے تو درخت لگاؤ اور اگر دائمی ہے تو مناسب افراد پیدا کرو‘‘۔ یہ مناسب افراد کوئی اور نہیں یہی ’’طلباء‘‘ ہیں جنہوں نے مستقبل میں اِس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔{jcomments on}
536