شرقی گوجر خان میں تعلیم کو عام کرنے کے لئے کی جانے والی بے پناہ کوشیشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں جس میں چودھری ظفر پگاڑہ اور لارڈ نذیر کا نا م شاید سب سے زیادہ نمایاں ہے جس کا اندازہ اس با ت سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے بھی سکول یو سی تھاتھی میں اپ گریڈ ہوئے ہیں ان میں زیا دہ تر کے باہر لگے بورڈ پر لارڈ نذیر کے نام کے ساتھ چوہدری ظفر پگاڑہ کا نا م بھی لکھا ہوا نظر آتا ہے اور باقول ان کے انہوں نے 29سکولوں کو اپ گریڈ کرایا ہے ، جو کسی بھی شخص کا اس کے علاقے پر ایک بڑا احسان ہو سکتا ہے اگر یہ ادارے صیحح حا لت میں کام کر نے شروع کر دیں تو۔ لیکن شاید چودھری صاحب کی اتنی کوششوں اور محنتوں کے باوجود بھی کہی کوئی کمی رہ گئی کہ آج بھی یو سی تھا تھی اور اس کی گرد و نواح میں نہ صرف تعلیم کی شرح کم ہے بلکہ ان علاقوں کو ایک عذاب کی طرح دیکھا اور سمجھا جاتا ہے اور جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہا ں ضرورت سے زیادہ غیر متعلقہ افراد کا عمل دخل موجود ہے ۔ چودھری صاحب کو بیسٹ وے فاونڈیشن کے آغاز کی تا ریخ تو یا د ہے پر یہ انہیں معلوم نہیں ہے کہ اب بیسٹ وے اس علاقے میں کام نہیں کر رہی ہے ، لیکن 2005میں شروع ہونے والی اس فانڈویشن سے اس علاقے کے لوگوں نے کیا کھویا کیا پایا یہ ایک الگ بحث ہے پر اتنا ضرور ہے کہ پورے ضلع راولپنڈی کے ہیڈماسٹروں نے اپنے سکول میں کام کرنے والے استاتذہ کو ڈاریا خوب کہ اگر یہاں ہمارا حکم نہیں مانو گئے تو یوسی تھاتھی میں ٹرانسفر کرا دوں گا۔
کچھ دنوں سے گورنمنٹ گرلز ہائیر سکینڈری سکول جبر اور گورنمنٹ ہائی سکول سموٹ کی ناؤ ڈھمک ڈول کر رہیں تھیں لیکن ظفر پگاڑہ اور ظفر الحق نے انہیں بچا لیا بلکہ گورنمنٹ گرلز ہائیر سکینڈری سکول جبر کے ساتھ تو مجزا ہی ہوا جس میں51طالبہ زیرِتعلیم تھیں اور قانون کے مطابق صرف ایک طالبہ زیادہ تھی جس کی وجہ سے اسے ختم نہیں کیا گیا ورنہ شاید قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی۔
ان دنوں ظفر پگاڑہ صاحب نے کھل کر اپنی خدمات کا ذکر بھی کیا لیکن انہوں نے یہا ں پر گزرنے والے ایک اہم دور پر اظہارِہمدرددی نہ کیا جو کہ اگست2012 کا تھا جب 42استاتذہ جن میں اکثر لوگ ریٹائرڈمنٹ کے قریب تھے ان کی جبری ٹرانسفر یوسی تھا تھی کے دور داز سکولوں میں کردی گئی تھی جن میں سے اکثر نے وقت سے پہلے رئٹائرمنٹ لے لی تھی یا پھر عدالت کا درواز کھٹکھٹانے پر مجبور ہو گئے تھے اور نہ ہی اس علاقے میں موجود کچھ ایسے مسائل اور حقائق کا ذکر کیا جن کا حل کرنا بھی ضروری تھا جیسے کہ گورنمنٹ گرلز ایلمنٹری سکول نوٹلہ ، جسے انہوں نے اپنی کوششوں سے مڈل تو کرا دیا لیکن نہ تو وہاں سٹاف پورا ہو سکا اور نہ ہی وعمارت بنائی گئی جس سے لوگوں کا اعتماد نہ جم سکا اور آج بھی یہا ں کی بچیا ں بوائز سکول میں تعلیم حاصل کر نے پر مجبور ہیں اس کے علاوہ وہ بھی ایک وقت تھا جب کنگر ، مندہال ، پلیاڈ ، ٹھاکرہ نوٹلہ اور پلینہ کے لوگوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ تھاتھی میں تعمیر ہونے والے کالج تک بچیوں کی رسائی کے لئے ایک بس سروس شروع کی جائے گئی پرآج تک یہ سروس شروع نہ ہو سکی اور اس علاقے کی بچیا ں یا تو آٹھویں کے بعد سکول کو خیر آباد کہ دیتی ہیں یا پھر جُگی نما پرائیویٹ سکولوں سے میٹرک کرتی ہیں جو کہ والدین پر اضافی بوجھ ہےان مسائل کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہیں جن کا حل کرنابھی گو رنمنٹ گرلز ہائیر سکینڈری سکول جبر کی طرح ضروری اور ناگزیر ہے ،پر شاید ان مسائل کے حل کے لئے اتنی پبلیسٹی نہ ملے جتنی کے کسی اور کام میں مل سکتی ہے لیکن اب وہ وقت آگیا ہے جب پحھلی خدمات کی بجائے آنے والے وقت کے متعلق سوچا جائے اور حکمتِ عملی طے کی جائے اور وہ وعدے یاد کئے جائیں جو اس علاقے کے لوگوں سے کئے گئے تھے کیونکہ آج اگر جبر گرلز سکول کو بچا لیا گیا ہے تو شاید کل کوئی اور سکول اس زد میں آ جائے اور وہاں کے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے میں ایک کیل ثابت ہو۔{jcomments on}
91