101

شرح خواندگی بڑھانے کیلئے حکومتی اقدامات ؟راجہ نوید حسین

اقبال کے دیس میں اجالوں کا ویسے ہی بہت فقدان ہے برقی قمقمے ہوں یا مستقبل کیمنتظر نونہالوں کی بات ہو دونوں ہی جگہ اندھیرا غالب ہے پاکستان کے تین کروڑ کے لگ بھگ نونہال اور اطفال حکومت کے شاندار پالیسیوں اور مہنگے تعلیمی منصوبوں کے باوجود بھی معیاری تعلیم سے مستفید نہیں ہو رہے پاکستان اسلامی ریاست ہوتے ہوئے بھی سرکاری تعلیمی اداروں میں پرائمری سکول نے ناظرہ قرآن کا اہتمام باضابطہ طور پر نہیں ہوتا کسی بھی سرکاری سکول میں پاکستان بننے سے اب تک نماز پڑھنے اور سیکھانے کا عمل کا کوئی باضابطہ وجود نظر نہیں آتا جب کہ آئین میں یہ بات شامل ہے کہ تعلیم کا فروغ سب کیلئے یکساں ہونا چاہیے اور نماز کا حکم براہ راست اللہ کی جانب ہونے کے باوجود تعلیمی نصاب بنانے والے اس بات سے آنکھیں چراتے ہیں محض چند قرآنی سورتوں کو نصاب کا حصہ بنا کر جان چڑا لی جاتی ہے پنجاب بھر میں نو تعلیمی بور ڈسر گرم عمل ہیں ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال پنجاب میں میٹرک کے امتحان میں چوبیس لاکھ طالب علم بچوں نے شرکت کی راولپنڈی سے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار میٹر ک کے طلباء طلبات شریک ہوئے تحصیل کلر سیداں بھی حکومتی رحم و کرم پر ہے اور یہاں سرکاری اداروں کی تعدار ایک سو پچاس کے لگ بھگ ہے بوائز ہائی ا سکولز کلر سیداں ،ڈیر ہ خالصہ ،بھکڑال چوآ خالصہ،دوبیرن جہاں پر اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ جن کا ماہانہ تنخواہوں کا بجٹ فی سکول پندرہ پندرہ لاکھ سے تجاوز کر جاتاہے اور حکومت پنجاب کو اس وقت فی بچہ جو زیر تعلیم ہے کا ماہانہ خرچ پانچ ہزار سے بھی زیادہ اٹھانا پڑتاہے ۔حالانکہ طلباء کا ذرائع آمد دو رفت اور سکول یونیفار اور دیگر اخراجات والدین کے ذمے ہیں ہمارے دو پڑوسی ممالک جہاں کھانا ذرائع آمدو رفت اور جز وی رہائش کا با ضابطہ اہتمام کیا جاتاہے تاکہ معیار تعلیم کے ساتھ ساتھ شرح تعلیم کا گراف بڑ ھایا جائے مہنگے تعلیمی سرکاری منصوبوں کے باوجود دو پچاس سرکاری و نجی سکولز ہوتے ہوئے بھی تعلیم کا گراف پچھلے تیس سالوں میں 50% شرح خواندگی عبور نہیں کر سکاجبکہ حکومت نے بٹھہ خشت کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے پر وظائف کا اعلان کیا اور دانش سکولز اور دیگر نت نئی حکمت عملی جاری کی تاکہ یکساں تعلیم پر عمل کیا جائے اس کے باوجو دحکومت شر ح خواندگی کا گراف بڑھنے میں کامیاب نظر نہیں آتی تحصیل کلر سیداں میں ہی ایک سو پچپن سے زائد پرائیویٹ ادارے تعلیمی مقابلے کی جنگ میں سر گرم نظر آتے ہیں اور بہت بڑے حد تک وہ والدین سے کیے گئے عہد و پیما نبا رہے ہیں کہیں مہنگی اور کہیں ازراہ معیار تعلیم فراہم کرتے ہوئے بہت شاندار خدمات سر انجام دے رہے ہیں ان پرائیویٹ اداروں میں بہت سے ایسے سکولز بھی شامل ہیں جن کا سالانہ بجٹ سے حاصل شدہ منافع سرکاری سکول کے ٹیچر کی ایک ماہ کی تنخواہ سے بھی کم بنتا ہے یہ بات حقیقت پر مبنی ہے ۔قابل ذکر پرائیویٹ اداروں کے مالکان میں سید زبیر حسین شاہ ،نئیر جمال اکرم راجہ ،راجہ ممتاز علی،پروفیسر پرویز اقبال وکی ،ماسٹر ظہیر احمد ،ماسٹر کرامت صاحب ،حامد محمود ،صادق بھٹی صاحب ،منیر شاہ ،مرزا حسن اختر ،شیخ عبدالقدوس ،چوہدری تسنیم ،اور دیگر بہت معتبر نام ہیں جنہوں نے شعبہ تعلیم کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ فروغ تعلیم کے وعدے کو انتہائی دیانتداری کے ساتھ نبھانے کی کو شش جاری رکھی ہوئی ہے اور پچھلی 3 دہائیوں میں معاشرے بہت سے قابل نام فراہم کئیے ہیں اصل مقصد حکومت کو اپنی مہنگی تعلیمی ذمہ داری کا احساس دلانا ہے جہاں بڑے بڑے دعوعہ اور سہولتوں کے باوجود خادم اعلی کی شاندار پالیسیوں پر پانی پھرتا نظر آرہا ہے جب تک پرائمری لیول پر با ضابطہ کوئی جانچ پڑتا ل نہیں کی جائے گی سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی ایسی ہی رہے گی حکومت کی توجہ پرائمری اداروں پر معیاری اساتذہ کے ساتھ فروغ تعلیم کی ضرورت فی زمانہ ایک تلخ حقیقت ہے جبکہ پرائیویٹ ادارے سرکاری اسکولوں سے بھاگنے والے بچوں کو بھی میٹرک کروانے اپنی مثال آپ ہیں ۔قوم 3 کروڑ بچوں کا مستقبل اب حکومت کے ہاتھوں ہے آئندہ پانچ سالوں میں دیکھنا یہ ہے کہ تعلیمی گراف 70% تک جاتاہے یا نہیں پرائمری تعلیم کو بہتر کئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں