113

سڑکوں پر قبضہ /عاطف علی ادریسی

عنوان سے آپ کو غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ اس تحریر کا تعلق حکمرانوں کے احتساب کے لیے چلائی جانے والی پی ٹی آئی کی اسلام آباد لاک ڈاؤن تحریک سے ہو گا مگر ایسا ہرگز نہیں ہمیں اپنی پڑی ہے بڑے لوگوں کے کام میں ٹانگ کیا اڑائی جائے بحرحال ایک تعلق تو اس تحریر کا اسلام آباد لاک ڈاؤن سے ضرور بنتا ہے اس تحریک میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سڑکیں بلاک کر کے حکومتی مشینری کو جام کرنے کی دھمکی دی تھی جسے حکومت وقت نے اس قدر سنجیدگی سے لیا تمام تر احتیاطی تدابیر اور ضروری اقدامات لینے میں ہرگز دیر نہ کی تاکہ عوام کے نظام زندگی میں ذرہ برابر تعطل نہ آئے اور حکومت کی رٹ بھی متاثر نہ ہو سو گرفتاریوں سے لیکر صوبائی شہرائیں منقطع کرنے اور کریک ڈاؤن سے لے کر وزیر اعلی کے پی کے کے قافلے پر گھنٹوں آنسو گیس برسانے تک تمام حربے آزمائے گئے یقیناًحکومت اسلام آباد کی عوام کے بنیادی حقوق آزادی سلب ہونے سے بچا لیے مگر ہمارے یہاں بھی تو کلر سیداں کی مرکزی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر دوکانداروں اور بینکوں نے قبضہ کر رکھا ہے اسے کون چھڑائے گا ، ریڑی بان ، خوانچہ فروش ، دوکاندار ہر کوئی فٹ پاتھ کو اپنی موروثی وراثت سمجھے بیٹھا ہے بینک تو خیر کالے لیلے کی اماں بنے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے مرکزی دروازوں کی حفاظت کے لیے فٹ پاتھوں پر نہ صرف آہنی جنگلے لگا رکھے ہیں بلکہ صبح سے شام تک مرکزی سڑک جو شہر کے اندر پہلے ہی تنگی کا شکار ہے کو کار پارکنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں مقامی انتظامیہ تو خیر شارہ آبرو کے بغیر ویسے ہی کچھ کرنے کی ہمت نہیں کرتی مگر وہ قوتیں جو اسلام آباد کی عوام کے حقوق اور آزادی کے لیے اتنے بڑے بڑے اقدامات لے سکتی ہیں کلر سیداں کے عوام کے حقوق سے چشم پوشی کیوں برت رہی ہیں کیا اسلام آباد کے عوام ہی پاکستان کے شہری ہیں کلر سیداں کے نہیں ؟کیا اسلام آباد کی سڑکیں جام کرنے سے شہریوں کا نظام زندگی مفلوج ہوتا ہے کلر سیداں کے نہیں ؟اور کیا حکومت کی رٹ کی اسلام آبادمیں ہے کلر سیداں میں نہیں ؟اسی طرح اگر ٹریفک مسائل کی بات کی جائے تو ٹریفک وارڈنز بھی صرف سڑکوں پر قبضہ جمائے کھڑے ہیں انہیں بھی اپنے اردگرد کے مسائل عام روٹین میں نظر نہیں آتے سارہ سارہ دن کلر سیداں ، چوک پنڈوڑی اور دیگر شہروں میں ون ویلنگ ، کالے شیشے ، بدون نمبر پلیٹس گاڑیاں ، کم عمر موٹر سائیکل سوار ، بغیر لائسنس اور پریشر ہارن جیسے مسائل ان کی آنکھوں کے سامنے ہورہے ہوتے ہیں ہیں لیکن ٹریفک وارڈن کے پاس ان مسائل کا حل نہیں سب کے سب اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے ٹائم پاس کرنے میں مصروف عمل ہیں دوسری طرف جب کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے راولپنڈی اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی دی جائے تو ایسے الرٹ ہوتے ہیں کہ روڈ پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا کیا حکومتی رٹ کی فکر صرف اسی وقت ہوتی ہے بعد میں نہیں اور کیا رٹ صرف راولپنڈی اسلام آباد کے لیے مخصوص ہے باقی شہروں کے لیے نہیں ؟ٹریفک وارڈنز کلر سیداں نے یہ ٹھان لیا ہے کہ چالان کا کوٹہ کیسے پورا کیا جائے ٹریفک مسائل حل کرنا ان کی ذمہ داری ہی نہیں سڑکوں پر غیر قانونی پارکنگ ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ٹریفک وارڈنز کی کلر سیداں میں کمی کے باعث کوئی بھی مسئلہ حل کرنا ان کے بس کی بات نہیں اور شہر سے باہر ناکہ لگانا ، ہوٹلو ں میں بیٹھ کر سارا سارادن سرگوشیاں کرنا ان کا فرض اولین ہے چوک پنڈوڑی ، شاہ باغ میں آئے دن حادثات کا رونما ہونا بھی ان ہی کی کارکردگی کا شرچشمہ سمجھا جاتا ہے شاہ باغ میں ون وے کی خلاف ورزی ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہوجاتا ہے مگر کیا کریں عملہ کی کمی جو پوری نہیں ہورہی لہذا شاہ باغ شہر میں ٹریفک وارڈن تعینات نہیں ہو سکتا ؟ان مسائل کو حل کرنا کس کی ذمہ داری ہے اعلی حکام کو گوراہ نہیں کہ وہ کلر سیداں کا دورہ کریں لوگوں کے مسائل دیکھیں اور ان پر عملدر آمد کے لیے احکامات جاری کریں تاکہ کلر سیداں کے شہریوں کوبھی ریلیف مل سکے ؟کلر سیداں کے شہری یہ سمجھتے ہیں کہ محض ٹریفک وارڈنز نے بھی سڑکوں پر قبضہ ہی کر رکھا ہے عملی اقدامات صفر ہیں ۔یہاں پراگر ہائی وے پٹرولنگ پوسٹ چوک پنڈوڑی کا ذکر نہ کیا جائے تو سر ا سر زیادتی ہوگی پٹرولنگ پولیس بنانے کا مقصد روڈ ڈکیتی اور رہزنی وارداتوں کو کنٹرول کرنا مقصود تھا لیکن یہاں پر بھی الٹی گنگا بہتی ہے رواں سال پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس پوسٹ چوک پنڈوڑی کے عین سامنے ڈکیتی کی واردات ہوئی جس پر پوسٹ کی کارکردگی عوام نے دیکھی جس پر متعدد اہلکاروں کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا تھا پٹرولنگ پوسٹ چوک پنڈوڑی کے حالیہ عملے نے بھی افسر شاہی کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس پوسٹ چوک پنڈوڑی عملہ کا گشت نظام ناکارہ ہوچکا ہے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پٹرولنگ پولیس کی گاڑی چوک پنڈوڑی اور کلر سیداں کے ہوٹلوں کے آگے ساکت حالت میں گشت کرتی دکھائی دیتی ہے ڈ رائیور غائبانہ عملے کے ہمراہ گشت ڈرامہ رچانے میں اکثر مصروف عمل ہوتا ہے اور روڈ سرویلنس کاغذی کاروائی تک محدود ہو چکی ہے گزشتہ دنوں تو چوکی عملہ نے سال بھر کی کارکردگی اور کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ایک ماہ میں ہی ناکہ لگا کر پوری کر دی اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چوکی کا عملہ روڈ سرویلنس اور گشت اکثر فیس بک اور سوشل میڈیا پر کرتا دکھائی دیتا ہے پٹرولنگ پولیس بھی سڑک پر قبضہ جمائے ہوئی ہے اور کوئی بھی ایسا معرکہ سرانجام نہیں دے سکی جس پر عملہ کو شاباش دی جاسکے یقیناًکلر سیداں کی عوام ان سوالوں کے جواب تلاش کر رہے ہیں۔.{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں