بادشاہ نے پڑوسی ملک کو فتح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو وزیر نے عرض کیا کہ حضور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس ایک بہت بڑی فوجی طاقت اور قوت موجود ہے لیکن پھر بھی بنا کسی معلومات، ٹھوس منصوبہ بندی اور جنگی حکمت عملی کے کسی ملک پہ حملہ کرنا بے وقوفی ہو گی، پہلے ہمیں اس ملک کے حالات کا علم کرنے دیں، پھر کوئی حکمت عملی طے کریں۔ بادشاہ نے وزیر کی بات مان لی ۔ وزیر خود پڑوسی ملک کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ جوں ہی اس کا بحری جہاز پڑوسی ملک کے ساحل پر لنگر انداز ہوا، وزیر نے ساحل پہ ایک نوجوان کو زارو قطار روتے ہوئے دیکھا۔ وزیر نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی ، نوجوان نے بتایا کہ میں نشانہ بازی کی مشق کر رہا تھا، میں نے ہدف پہ 100 تیرچلائے،99کامیاب ہوئے اور ایک تیرخطا ہو گیا، میں اس لئے رو رہا ہوں کہ میرا نشانہ کتنا کمزور ہے۔ نوجوان کی بات سن کر وزیر وہیں سے واپس پلٹا اور بادشاہ سلامت کی خدمت میں عرض کی کہ حضور اس ملک پہ حملہ کرنے کی سوچ اپنے دل سے نکال دیں،جہاں کے ایک نوجوان کی یہ حالت ہے تو اندازہ لگائیں کہ پوری قوم کیسی ہو گی؟ اس کے لئے ہمیں کوئی تدبیر سوچنی پڑے گی، جس کے لئے کچھ وقت درکار ہو گا۔بادشاہ نے وزیر پہ اعتماد کرتے ہوئے اسے اجازت دے دی کہ وہ جو کرنا چاہتا ہے کرے۔ وزیرنے ایک تدبیر سوچی اور اپنے ملک کے طول و عرض سے تمام رقاصاؤں، طوائفوں ، فنکاروں، گلوکاروں اور فاحشہ عورتوں کو اکٹھا کیا ، انہیں ان کا کام سمجھایااورثقافتی پروگرام کے بہانے پڑوسی ملک میں بھیج دیا۔ جب کافی عرصہ بیت گیا تووزیر نے حالات جاننے کے لئے ایک بار پھر اس ملک کا رخ کیا، اس بار جب اس کا جہاز ساحل پہ رکا تو اس نے پھرایک نوجوان کو ساحل پہ روتا ہوا دیکھا۔ وزیر اس کے پاس گیا اور پوچھا، نوجوان تم کیوں رو رہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا ، میں جس لڑکی سے پیار کرتا تھا اس نے مجھے دھوکہ دیا ، وہ مجھے چھوڑ کے چلی گئی، میں اس کی جدائی میں رو رہا ہوں۔ وزیر مسکرایا اوروہیں سے واپس پلٹا اور بادشاہ سے کہا کہ حضور پڑوسی ملک پر حملے کا وقت آ گیا ہے۔ بادشاہ نے حملہ کیا اور معمولی مزاحمت کے بعدملک فتح کر لیا۔ جب دماغ پہ قبضہ ہو جائے توزمین پہ قبضہ مشکل نہیں رہتا۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھی ہم پہ قبضہ کرنے کے خواب دیکھتا ہے اور اس کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کرتا ہے۔ انڈیا کی حالیہ وزیر خارجہ شسمہ سووراج جو کہ بھارتی جنتا پارٹی کے پہلے دور حکومت میں وزیر اطلاعات و نشریات تھیں ، نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ انڈیا کو پاکستان کی سر زمین فتح کرنے کے لئے زمینی کاروائی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ یہ کام ہم ان کے دماغوں اور ان کی سوچ کو فتح کر کے بھی کر سکتے ہیں، اور یہ کام ہم اپنے ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے ذریعے کریں گے۔ اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ انڈیا اپنے اس وار میں کس حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔ انڈین ڈرامے، فلمیں اورکارٹون ہماری زندگی کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔ جن کو دیکھ کر ہماری نسلیں آج تباہی و بربادی کے راستے پر گامزن ہیں۔ ہماری تہذیب، ہماری ثقافت سب کی سب داؤ پہ لگ چکی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنے ملک، اپنے آباؤ اجداد، اپنے قائد کے بارے میں پتہ ہو یا نہ ہو ، ا نڈیا کی ہرفلم کے بارے میں مکمل معلومات ضرور ہوں گی۔ انہیں اپنی کتاب کا سبق یاد ہو یا نہ ہو، انڈین فلموں، ڈراموں کی کہانیاں اور ان کے گانے ضرور یاد ہوں گے۔ انڈین فلموں اور ڈراموں میں جس کلچر کو دکھایا جاتا ہے اسے ہم بڑے فخر کے ساتھ اپنی روز مرہ زندگی میں غیر محسوس طریقے سے شامل کرتے جا رہے ہیں۔ ہمارا لباس، ہماری چال ڈھال، ہمارے طور طریقے، ہماری زبان، ہمارے رسم و رواج اور حتی کہ ہماری سوچ سب کے سب ہی تبدیل ہو چکے ہیں۔ پہلے خاندان کے بڑے بزرگ اپنے بچوں کا رشتہ طے کرتے تھے، اب بچے شادیاں پہلے کرتے ہیں اور ماں باپ کو بعد میں پتہ چلتا ہے۔پہلے سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بچے ملی نغموں پہ ٹیبلو پیش کرتے تھے اور آج انڈین گانوں پہ رقص ہوتا ہے۔ پہلے شادی بیاہ میں سب خاندان کے لوگ مل کر ماہئیے اور ٹپے گاتے تھے اور آج انڈین گانوں پہ لڑکے لڑکیاں اکٹھے ناچتے ہیں۔ اورجب حالت یہ ہو جائے کہ بچہ ماں باپ سے یہ پوچھے کہ پھیرے تو ہوئے نہیں پھرشادی کیسے ہو گئی؟ تواس سے بڑھ کے اور انتہا کیاہو گی ۔ زمینی حملے سے بھی بڑا حملہ ہے دماغی حملہ، سوچ پہ حملہ اور بھارت کا یہ حملہ ہم پہ ہو چکا ہے ، زمینی حملے کا مقابلہ تو ہماری فوج کے بہادر جوان کر رہے ہیں،لیکن بھارت کے دماغی حملے کا جواب تو ہم نے ہی دینا ہے ، کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں؟؟؟اس سے پہلے کہ مزید دیر ہو جائے، بھارتی ڈرامے، فلمیں اور گانے بند کریں نہیں تو انجام آپ کے سامنے ہے۔{jcomments on}
78