88

سولہ دسمبر پھر سے آیا مگر مایوس نہیں ہیں ہم/نِدا وحید

16دسمبر 2014ایک افسوس ناک دن جو گزر گیا لیکن اپنے تاثرات ہم پر جماکر گیا ہے اس قدر ہمارے دلوں میں بسیرا کیے ہوئے ہیں کہ وہ معصوم پھولوں جیسے چہرے ہمیں چین کی نیند سونے نہیں دیتے اور ہمارے دلوں میں یہ احساس ابھار رہے ہیں کہ ا ٹھو میرا بدلہ لو میں تمہارے ساتھ ہوں آج پھر تاریخ نے خود کو دہرایا ہے ایک بار پھر 16 دسمبر 2014آیا ہے مگر مایوس نہیں ہیں ہم بلکہ ہمارے حوصلے مزید مضبوط ہو چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں مزید پختہ ارادوں نے جگہ بنا لی ہے کہ ہم اپنے معصوم بچوں کا بدلہ ضرور لیں گے جس طرح ان درندہ صفت انسانوں نے ہمارے ملک کے مستقبل پر حملہ کیا اور ہمارے معصوم بچوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی ہے اسطرح ہم بھی ان کے ارادوں پر ایسی کاری ضرب لگائیں گے کہ وہ یاد رکھیں گے اور ہاں یاد آیا میں بھی کتنی پاگل ہوں نہ مردوں کو پیغام دے رہی ہوں مردے کب کسی کی سنتے ہے او مردا لوگو سنو تم کو اب اتنی آزادی نہیں دے سکتے کہ تم اپنے گندے ارادوں سے ہمارے ملک کو کمزور کرو بلکہ ہم اپنا خون کا قطرہ لگا کر اس ملک کو پاک کرنے کی کوشش کریں گے یہاں تک کہ اپنا سب کچھ لٹا دیں گے
تمہیں کیا سناؤں اے مردہ انسان تو زندوں میں بھی مردہ ہے
تم نے تو مجھ کو مارا تھا مگر میں مردوں میں بھی زندہ ہوں
اس سے بہتر بھی تمہارے لیئے کوئی طعنہ ہو گا میری مانو تو شرمندگی سے ایک گھونٹ پانی میں ڈوب مروابھی تو ہماری باتیں سننی ہیں تمہیں یقین تو تب آئے گا جب ہم تمہارے ہی بچوں کو تمہارے ہی خلاف کر دیں گے پھر تمہارے بچوں کی بندوق ہو گی اور تمہارا ہی سینہ ہو گا دیکھو یہ ارادے ہیں ہمارے تمہارے کمزور دلوں کو مزید کمزور کرنے کے لیئے تمہاری بندوقوں میں اتنا دم نہیں کہ ہمارے ارادوں کو کمزور کر سکے انشاء اللہ ہم تم جیسے سفاک لوگوں کا خاتمہ کریں گے کاش اے مردہ لوگوں میرا یہ پیغام تم تک پہنچ سکے
اب تمہیں بتائیں گے ہم گھر تیرے جلائیں گے ہم
جتنے کبھی روئے تھے ہم تم کو بھی رلائیں گے ہم{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں