سوشل میڈیا نے عوام کو ایک ایسا ہتھیار فراہم کر دیا ہے جس کو کہیں سے بھی چلایا جا سکتاہے ایسے میں میں بھی اس سے کئی ایک سبق سیکھ رہا ہوں اور کھبی کھبی وہ باتیں بھی سامنے آتی ہیں جو ہوتی تو سچ ہیں مگر ہوتی رسواء کرنے والی ہوتی ہیں ایسی ہی ایک تصویر چند دن پہلے میری آنکھوں کے سامنے سے گزری جس میں ایک تلور اپنا دھکڑا بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ جمہوریت بچانے میں ہماری بھی قربانیاں ہیں اور اس کی یہ باتیں بلاشبہ سچ ہیں کیونکہ جس پرندنے کی نسل کوختم ہونے کا خطرہ ہے اس کے شکار کی ہم صرف اس لئے اجازت دیتے ہیں کہ اگر ہم نے اس کے شکار کی اجازت نہ دی تو خدانخواستہ جمہوریت خطرے میں پر جائے گی۔پاکستان میں کہنے کو تو جمہوریت ہے مگر جس طرح یہاں جمہوریت کا حسن سب دیکھ رہے ہیں اس سے کئی لوگوں کو یقین ہے کہ اگر یہی جمہوریت ہے تو پھر پتہ نہیں آمریت یا بادشاہت کیسی ہو گی پاکستان میں عوام کے لئے جمہوریت یا آمریت کھبی بھی فائدہ مند نہیں رہی ہیں بلکہ ان دونوں سے فائدہ صرف حکمرانوں نے اٹھایا ہے اور سب سے اہم بات کہ ان دونوں میں حکومت کرنے والے کئی چہرے ایک ہی جیسے ہیں مثلا جو لوگ آمریت میں آمر کے اگے پیچھے اس کے مشیر بنے ہوتے ہیں وہی لوگ جمہوریت میں جمہور کے کرتا دھرتا ہوتے ہیں مطلب یہ کہ اس میں نفع تو حکمرانوں کا اور نقصان ہمیشہ سے ہی پاکستان یا پاکستانی عوام کا ہوتا آیا ہے عوام اتنی سادہ ہیں کہ انھیں کو دیکھ کر امریت اور جمہوریت کے اچھے اور برے ہونے کا اندازہ لگاتی رہتی ہے یہی حال آج کے حکمرانوں ہے آپ ہسٹری دیکھ لیں کوئی بھی حکمران ایسا نہیں ہو گا جو آمریت کی کوک سے نہ نکلا ہو اَس وقت آمریت ان پر حلال تھی اور آج جمہوریت ان پر حلال ہے مطلب یہ کہ ان لوگوں کو اپنے فائدے کے لئے کچھ بھی کرنا ہے ضمیر کا سودا یا جو بھی وقت کی مناسبت سے کرنا پڑ جائے انھیں کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں کرپشن اقرباء پروری اور اس جیسی کئی لعنتیں بری تیزی سے بڑھ رہی ہیں پنجاب پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے دس کروڑ سے زائد ابادی والے اس اہم ترین صوبے میں طویل عرصے سے ایک ہی جماعت کے اقتدار کے باجوود اس صوبے میں سوائے سیاسی محاذ ارائیوں، کے کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام نہیں دیا جاسکا تعلیم کی مفت فراہمی ایک وعدے سے آگے نہیں بڑھ سکی دانش سکول تو کھل گئے مگر معیار ایسا کہ غریب دور اور امیر نزدیک کر لئے گئے۔جبکہ دیگر ریگولر سکولوں میں پلاننگ کا یہ حال ہے کہ صرف اشتہار ات شائع کر کے عوام کو بیوقوف بنانے کی مشقیں جاری ہیں دور نہ جائیں شہروں سے تیس کلو میٹر دور کے قصبات میں جا کر دیکھیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گے چند لمحوں کے لئے پنجاب کے کسی بھی ایک ضلع کی کسی بھی ایک مخصوص تحصیل کی مثال لیں، اس مخصوص تحصیل میں سے ایک ہسپتال، ایک سکول اورایک تھانہ سامنے رکھ لیںآپ پر ساری صورت حال واضح ہوجائے گی ۔آپ دوسری طرف آئیں پولیس کو سامنے رکھیں جو علاقے میں جرائم کے کنٹرول کرنے کی ضامن ہوتی ہیں اس کا کیا حال ہے پولیس میں بھرتی ہونے والے شخص کو سب سے پہلا سبق ہی شاید یہ ملتا ہے کہ اس نے اپنی وردی کا رعب جمانا ہے اور داد رسی کے لئے سامنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ہے اور کام کرنے کے پیسے لینے ہیں اور لینے بھی ایسے ہیں جیسے یہ حق ہے پولیس کا اور جسے پولیس پر یہ حلال کر دیا گیا ہو اس کی مثال آپ پولیس اسٹیشن جا کر بخوبی دیکھ سکتے ہیں اینٹی کرپشن کے جائزوں کے مطابق پنجاب پولیس کا ادارہ پنجاب کے تمام اداروں میں سے سب سے زیادہ کرپٹ ہے پولیس کا کام
خدمت سے زیادہ اذیت دینا بنا ہوا ہے کئی کیسوں میں اگر ڈکیتی یا چوری کی FIRدرج کروائی جائے تو پولیس مدعی کو کہتی ہے کہ اگر آپ کو اس ملزم کا پتا معلوم ہو تو ہمیں بتا دینا ہم اس کو گرفتار کر لیں گے اس پر بندہ ہنسے یا روئے پنجاب میں پولیس اتنی بدنام کیوں ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں سب سے پہلی کرپشن ہے جو کہ شاید اب اس حد تک بڑھ چکی ہے ختم کرنا ناممکن سا لگتا ہے دوسرا پنجاب پولیس میں سیاسی مداخلت کی ایک پوری تاریخ ہے سیاسی عدم استحکام بھی اس صوبے کا خاصہ ہے کہ کم و بیش دس سال سے ایک ہی جماعت کی حکومت ہوتے ہوئے بھی یہ صوبہ اس وقت تک ایک مثالی صوبہ نہیں بن سکاتو پھر آگے کیا امید کی جا سکتی ہے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا حال یہ ہے کہ اساتذہ، ڈاکٹر، پینشنرز، کسان سڑکوں پر براجمان ہیں ان کو سننے کے بجائے پولیس کا استعمال کرنا شاید حکمرا نوں کا خاصہ ہے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ملازمین کے لیے نامساعد حالات، کارِ سرکار میں سیاسی مداخلت، سیاسی بنیادوں پر عہدوں کی بندر بانٹ سب کے سامنے ہے میں جب بھی پنجاب کے حکمرانوں کو یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ یہ مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں تو حیران ہوتا ہوں کہ ان کے اقتدار میں رہتے ہوئے پندرہ سال ہونے کو ہیں مگر ابھی تک وہ ان مسائل کو ختم کیوں نہیں کر سکے کیوں کہ اقتدار ایک ہی در کی باندی دو دہائیوں سے بنا ہوا ہے وہ بھی بلا شرکت غیرے ایسے میں اگر مسائل حل نہیں ہو رہے تو صاف ظاہر ہے کہ حکمران نااہل ہیں مگر ان کو ناہل کہنے والا شاید کوئی نہیں اور سب اچھا کہ رٹ لگانے والے بہت زیادہ ہیں ۔{jcomments on}
98