ایک بار پھر پائلو کوئلو کاوہی جملہ . زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بس سبق ہوتے ہیں سیکھنے سے آدمی انکار کر دے تو قدرت ہمارے لیے انہں دہراتی رہتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت کا مسلہ ہو1965کی جنگ ہو1971کی جنگ ہو سانحہِ مشرقی پاکستان ہو پاکستان میں ہر وقت سازش میں ملوث ’را‘پیش پیش رہتی ہے۔ پشاورآرمی پبلک سکول میں معصوموں کا قتلِ عام ہو یا حال ہی میں سانحہ چارسدہ ہو جس میں 25کے قریب ہمارے طلبہ و طلبات ہو اور ایک اسٹنٹ پروفیسر کی شہادت ہو یا پھر بمبئی میں دھماکے ہوں الزام تراشی پاکستان پر حالانکہ ساری جانچ پڑتال کے بعد انڈیا کے شدت پسندوں نے خود ہی ایسا کام کیا تاکہ پاکستان کا امیج عالمی برادری میں خراب کیا جا سکے۔ جعلی اجمل قصاب بنا کر پیش کیا اور پھر سارا ڈراما فلاپ ہو گیا اور سمجھوتہ ا یکسپریس ہو۔ یہ سب پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
حال ہی میں مودی کا دورہِ لاہور ہو جواچانک ہوا سمجھ سے بالا تر تھا۔ سوچا تھا کے نتیجہ دیر سے نکلے گالیکن کبھی کبھی منافقت یک دم سامنے آ جاتی ہے۔ صرف دوتین دن بعد واقع پٹھان کوٹ پیش کر دیا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ انڈیا والے فلمیں اچھی بنا سکتے ہیں لیکن ڈرامے نہں اور جب ان کا یہ ڈرامہ فلاپ ہو گیا تو انھوں نے پٹھان کوٹ کا الزام جشِ محمد کے سربراہ مولانا اظہر مسعود پر لگایا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہے۔ بھارت اور عالمی برادری کے شور پر جب مولانا اظہر مسعود کو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا تو پاکستان نے واقعِ پٹھان کوٹ کے لیے تحقیق کمیٹی تشکیل دی تو انڈیا کے وزیرِ دفاع نے بیان دیا کہ ہم پاکستانی وفد کو پٹھان کوٹ کی بیس میں داخل نہں ہونے دیں گے۔ ہم اس واقعے کے ذمہ داروں کو سبق سکھائیں گے پھر دو تین دن کے بعد سانحہ چارسدہ ہو گیا اور ہمارے معصوم طالبِ علموں کو شہید کر دیا گیا۔ اب پاکستان کو یہ چاہیے کہ انڈیا کو یہ پیغام دے کہ وہ اپنے وزیر کو گرفتار کرے اور سانحہ چارسدہ کی تحقیق اس سے کرے۔ ہمارے ازلی دشمن انڈیا نے افغانستان میں اپنی ایجنسی’ را ‘کی مدد سے متعدد اپنے سفارت خانے قائم کئے ہوئے ہیں۔ وہ ’را‘ والے شدت پسند طالبان سے ہمارے ملک کے اندر دہشت گردی پھیلاتے ہیں اور لوگوں کو خوف میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ حالانکہ مودی سرکار کا بھیانک چہرہ والی تصویر پیش کرتا ہے۔ ایک طرف اربوں ڈالر کا اسحلہ جس ملک سے ملے دھڑا دھڑم خریدتا ہے۔ دوسری طرف ایسی ذلت اور غربت جو صرف افریقی ملکوں میں ہے چار لاکھ ڈالر کا سوٹ پہنے سے انڈیا کا چہرہ روشن نہں۔ مزید سیاہ نظر آتا ہے بالی ووڈ فلموں میں اور عالمی میڈیا پر بڑا ماڈرن بن کر پیش کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں اور ہدایت کاروں کی کوشش ہوتی کہ آسمان کو چھوتی عمارتیں اور عالی شان پلازے کے سایے میں پہننے والی کچی آبادیوں اور جھونپڑیوں میں حیوانوں کی سی ذندگی بسر کرنے والے کروڑوں انسانوں پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس کی ایک ہی مثال کافی ہے انڈیا کے صوبے بہار کی آبادی تقریباََ بیس کروڑ ہے جس میں سے گیارہ کروڑ لوگ بجلی جیسی نعمت سے محروم ہیں اور بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں انجنئر اور پوسٹ گریجویٹ امیدواروں میں چپڑاسی بننے کہ دوڑ لگی ہوئی ہے اور پی ایچ ڈی لوگ بھی چپڑاسی کی دوڑ میں شامل تھے۔جب ان سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ فاقے کرنے سے چپڑاسی کی نوکری بہتر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک دوست کا انڈیا جانے کا اتفاق ہوا بھوک، افلاس ، غربت ، ننگے تن، ہڈیوں کے ڈھنچے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ایسے بے حس حکمرانوں کو عوام سے کوئی ہمدردی نہں ہے۔
ایسے میں مولا علیؓ کا قول مجھے یاد آتا ہے ’’ ملک کفر سے چلایا جا سکتا ہے ظلم سے نہں‘‘۔
اب ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ انڈیا سے تعلق سوچ سمجھ کر اور امریکہ کے دباؤ کے آنے سے پہلے اپنے ازلی دشمن کو غور سے پرکھے ۔ جو کھبی بھی آپ کا نہ ہوا اور نہ آئیندہ آپ کا ہونے والا ہے۔ہماری حکومت ہر واقعے کے وقت چند دن افسوس اور بعد میں خاموش ۔ آپ ایسی حکمت عملی اپنائیں جو ہماری درس گائیں ، مساجد، امام بارگاہوں اور احساس اداروں کی سیکورٹی کو مضبوط بنائیں ۔ صرف باتوں سے نہں عمل سے کام لیں صرف کمیٹی تشکیل دینے سے مسلے حل نہں ہوتے آج اور ابھی ایک مضبوط حکمتِ عملی طے کریں دہشت گردوں اور ہمارے ازلی دشمن انڈیا کو کوئی ایسا موقع فراہم نہ کریں جس سے ہمارے ملک میں دہشت گردی پھیل سکے۔
نپولین کا قول یاد آتا ہے ۔ ’’ آپ کا اگر کوئی دشمن حماقتوں پے حماقتیں کریں تو آپ خاموش رہیں ان حماقتوں کی وجہ سے ایک دن خود تباہ ہو جائے گا‘‘۔
انڈیا جو ہر ہمسائے کے ساتھ سازش کرتا ہے مثلاََ ، نیپال، بنگلہ دیش ، برما اور پاکستان کے ساتھ اکثر حماقتیں کرتا رہتا ہے۔ انشا اللہ ایک دن خود تباہ ہو گا۔
آخر میں ایک قول ’’ انسان کی ٖغلطیاں اسے وہ درس دیتی ہیں جو کسی درس گاہ سے نہیں مل سکتی‘‘۔{jcomments on}
102